آشوب آگہی کا شکار باشعور پاکستانی جب اپنے گرد و پیشدیکھتا ہے تو اسے اپنے المیے کا طول و عرض کچھ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہم نے جن مقاصد کے لیے یہ وطن حاصل کیا تھا ان میں سے سوائے ہندو اکثریت کے غلبے سے نجات کے کوئی ایک بھی مقصد پورا نہیں ہوا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارا حکمران طبقہ اسلام سے مخلص نہ ہی جمہوریت اور عدل اجتماعی کے تصورات کے ساتھ سنجیدہ ۔ فوجی آمریت براہ راست اور بالواسطہ طور پر پچاس سال سے زائد عرصہ قائم رہی۔ ایک وزیر اعظم اور ایک سابق وزیراعظم قتل ہوئیں، ایک کو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا۔ تین چار کو سزائیں ہوئیں اور کچھ پرسرار موت کا شکار ہوئے۔ قائد اعظم، فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی بظاہر تو طبعی موت کا شکار ہوئے مگر کن حالات، دباؤ اور ادویات کے استعمال سے اچانک اس جہان فانی سے کوچ کر گئے وہ بھی ایک انوکھی داستان ہیجس طرح لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک معمہ ہے۔ نواز شریف خوش قسمتی سے بچ گئے اور عمران خان شاید اتنے خوش قسمت ثابت نہ ہوں کیونکہ اس نے اڑتے تیر کا رخ اپنی طرف موڑنے کا کام بڑی مہارت سے کیا" کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن اور گجھ سانوں مرن دا شوق وی سی "۔ ایک پارٹی سے انتخابی نشان چھین جانے سے 8 فروری کے انتخابات کی کیا کریڈیبلٹی ہو گی۔ نوے دن میں الیکشن نہ کرا کے الیکشن کمیشن اور پی ڈی ایم کی حکومت نے آئین کو جس طرح روندا اس کی کسی جمہوری معاشرے میں مثال نہیں ملتی ۔ لگتا ہے کہ نظریہ ضرورت کے آسیب سے ہماری کبھی بھی جان نہیں چھوٹے گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حصول آزادی کے بعد بھی انگریز کا چھوڑا ہوا سماجی اور معاشی ڈھانچہ ابھی تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس کے تضادات کی سنگینی میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ سٹیس کو کی علمبردار قوتوں، مافیاز کا گٹھ جوڑ آج جتنا مضبوط اور توانا دکھائی دے رہا ہے کسی بھی صاحب فہم انسان کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ ن اور آج تحریک انصاف کے قائد ین،رہنماؤں اور کارکنوں کو جس جبر کا سامنا ہے وہ بنیادی انسانی حقوق، عدل و انصاف ،مساوات، جمہوری روایات اور احترام آدمیت کی یکسر نفی ہے۔ ہمارے ملک میں کمزور طبقات کی شخصی آزادیوں کے تحفظ و تقدس کا کوئی رواج نہیں ۔ حق سچ کی آواز بلند کرنے والے چند ایک صحافیوں دانشوروں، اور سیاسی کارکنوں کی زندگی تنگ کی جا رہی ہے خواتین کی بے حرمتی، تشدد اور تذلیل میں ہماری پولیس نے ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اس ملک میں آمرانہ سیاسی نظام، طبقاتی غلبہ اور استحصالی سماجی، معاشرتی اور انتظامی و عدالتی ڈھا نچے ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار کر نا ممکن نہیں ۔ہم نے جمہوریت، آئین، اور عدل و انصاف کو با زیچہ اطفال بنا رکھا ہے ۔پاکستان کی رولنگ ایلیٹ کسی حوالے سے بھی ڈیلیور نہیں کر پا رہی وہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے میں بری طرح ناکام ہے جس کی وجہ سے ملک کے تعلیم یافتہ اور صاحب فراست پاکستانیوں میں شدید اشتعال اور ردعمل پایا جاتا ہے۔ جس سے مذہبی شدت پسندی کو تقویت مل رہی ہے اور عملاً دین کی بنیادی تعمیری اقدار پر اجتماعی صورت گری کہیں دکھائی نہیں دے رہی ۔ ملک کا نوجوان با شعور تعلیم یافتہ طبقہ ملک سے بیگانگی اختیار کر رہا ہے اکثر یت کی کوشش ہے کہ اس ملک سے ہجرت کر جائیں کیونکہ پاکستان میں 76 سال گزرنے کے بعد بھی ہم انسان دوست معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد بھی کوئی ایسی امید نہیں دکھائی دے رہی ہے کہ یہ ملک آنے والے وقتوں میں ایک جمہوری، فلاحی ریاست کا روپ ڈھال لے گا۔ کوئی موجود وقت کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت سے امید رکھتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میںبس رہا ہے جب الیکشن منصفانہ نہ ہوں گے اور جیتنے والے آزاد امیدواروں کی اکثریت نادیدہ ہاتھ میں ہوگی تو کیسا سیاسی استحکام اورکیسی معاشی ترقی؟ جب ڈنذے کے زور پر سماج کو پرونے کی کوشش کی جائے گی تو ایسی چھید والی چھلنی میں کیا ٹھہرے گا ۔ ہم دائروں میں سفر کر رہے ہیں اور بحثیت قوم ہماری مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے نئی نسل کو قیام پاکستان کا جواز سمجھانا روز بروز مشکل ہو رہا ہے اور یہ بات میں مکمل ذمہ داری سے بحثیت نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے رکن کے طور پر کر رہا ہوں جس کا نوجوان نسل سے مسلسل انٹریکشن ہے۔ آج پاکستان کو جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے وہ ایک بہت گھمبیر المیے میں تبدیل ہو چکا ہے اور ایک ایسا مخمصہ بن چکا ہے جس کی جڑیں کینسر کی طرح وطن عزیز کے جسد خاکی میں پھیل چکی ہیں اگر ہمارے فیصلہ سازوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور ملک کو جدید جمہوری تقاضوں کا آئینہ دار ملک بنانے کے لیے اپنے تعصبات کو بالا تر رکھ کر معاشرے میں ہم آہنگی اخوت اور سیاسی برداشت کو فروغ نہ دیا تو ہمارا مستقبل تاریک سے تاریک ہوتا چلا جائے گا دس کروڑ لوگ نان و نفقہ کے محتاج ہیں اور دو فیصد امراء عیش عشرت کے ساتھ سرکاری آخراجات پر محلات میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان بظاہر ایک معاشرہ ہے مگر اس کے کئی segments ہیں اس کے اندر کئی گروہ اور اداراتی طبقات ہیں جن کے نزدیک ان کا مفاد پاکستان اور 25 کڑور عوام سے بالاتر ہے۔ ہم جب تک اس زہریلی ذہنیت سے چھٹکارا نہیں پائیں گے تب تک ہم پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے وژن کے مطابق ایک فلاحی اور جمہوری ریاست نہیں بنا پائیں گے جہاں میرٹ کا دور دورہ ہو امیر اور غریب کے لیے یکساں نظام تعلیم اور ترقی کے مساوی مواقع ہوں اور جوابدہی کے ویسے ہی کڑے معیار ہوں جو کسی مہذب ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں جہاں کرپشن اور آئین شکنی ایک نا قابل معافی جرم ہوتا ہے۔ جہاں امراء کی آمدنی پر براہ راست ٹیکسوں کا بڑا حصہ محروم طبقات کی کفالت او ر دیکھ بھال پر خرچ ہوتا ہے، جہاں سیاسی اختلافات پر غداری کے سرٹیفیکیٹس جا ری نہیں کئے جاتے جہاں ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے وہ فضل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو