دبئی کا ایک نجی کاروباری ادارہ عمار گروپ ساٹھ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے سری نگر شہر میں ایک شاپنگ مال اور کثیرالمقصد تجارتی ٹاور تعمیر کرنے جارہاہے ۔ عمار گروپ کے اس فیصلے نے تنازعہ کشمیر اور مزاحمتی تحریک پر اس اقدام کے اثرات کے حوالے سے ایک گرما گرم بحث چھیڑدی ہے۔ بظاہر اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ اقتصادی ترقی اور روزگار کی فراہمی کی جانب ایک مثبت قدم ہے لیکن تنازعہ کشمیر سے جڑے لوگوں کے لیے یہ محض ایک کاروباری اورتجارتی سرگرمی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں بھارتی نقطہ نظر کو تقویت اور اس کے قبضہ کو دوام ملے گا۔ دہائیوں سے پاکستان کے دوست ممالک کی روایت رہی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی قوم کے جذبات اور حساسیت کا ٰخیال رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر دہلی میں مقیم سفرا کو سری نگر کے دورے کی دعوت دی جاتی ہے تو چینی سفیر یہ دورہ کرنے سے معذرت کرلیتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے قریبی دوست ملک متحدہ عرب امارات نے گزشتہ چند برسوں سے پاکستانیوں کے کشمیر کے حوالے سے جذبات اور سرکاری پالیسی کی پروا کیے بغیر بھارتی نقطہ نظر کو نہ صرف تسلیم کرنا شروع کردیا بلکہ اسے تقویت دینے کا باعث بھی بن رہاہے۔ مثال کے طور پر اگست 2019 میں متحدہ عرب امارات کے دہلی میں مقیم سفیر نے ایک بیان جاری کیا جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دہلی کے زیر انتظام دو خطوں میں تقسیم کرنے کے بھارتی فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا۔ بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے کوشش کررہاتھا کہ سعودی عرب، ایران اور دیگر خلیجی ممالک کے ذریعے کشمیریوں کو باور کرائے کہ جدوجہد آزادی کوترک کرکے وہ معاشی ترقی کی دوڑ میں شریک ہوجائیں۔ اس پس منظر میںابھی تک ملکی اور غیر ملکی سطح پر سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی بھارتی کوششوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ پانچ اگست کے اقدام کاجواز پیش کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ ریاست کی جداگانہ حیثیت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی۔ لیکن عملاًگزشتہ ساڑے تین برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں بیرونی سرمایاکاری میں پچاس فی صد سے زائد کمی ہوئی۔ اب عمار گروپ تمام تر تحفظات اور سکیورٹی خدشات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ملین مربع فٹ کا مال تعمیر کررہاہے جس میں 500 دکانیں ہوں گی۔اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے خطے میں مزید سرمایہ کاری اور ملازمتیں آئیں گی اور مقامی آبادی کے لیے بنیادی ڈھانچے اور خدمات کو بہتر بنایا جائے گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ترقی سے علاقے کی معاشی ترقی میں مدد ملے گی اور سری نگر کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ بھارت نواز حلقوں کا دعویٰ ہے کہ عمار گروپ ایک معروف بین الاقوامی کمپنی ہے جس کے پاس دنیا بھر میں کامیاب منصوبوں کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ ان کی آمد سے کشمیری معیشت میں عالمی دلچسپی اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ اس کے برعکس رائے رکھنے والوں کا خیال ہے کہ عمار گروپ کے منصوبے کو قبول کرلیا جاتااگر اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی زندگی میں کوئی حقیقی سدھا ر آتا۔ بھارت انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرتا۔ کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرتا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی ممکن ہوجاتی۔ لیکن جس طرح متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بحالی اور سرکاری سطح پر گرمی جوشی کا فلسطینی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی سرمایہ کاری سے بھارتی جبر استبداد میں کمی نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوجائے گا۔ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کا دم بھرنے والے ممالک کو یہ تلخ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیرمیں جب حکومتیں شہریوں پر تشدد کرکے انہیں جیلوں میں ڈالتی ہیں۔ ان کے گھر مسمار کرتی ہیں۔بستیوں کی بستیاں اجاڑتی ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں اور صحافتی آزادیوں کا گلہ گھونٹی ہیں تو اس کے نتیجے اسرائیل اور بھارت کے دوست ممالک کے خلاف رائے عامہ میں سخت ردعمل پیدا ہوتاہے۔ ان کی توجیحات اور دلائل کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔فلسطین اور کشمیریوں کی قیمت پر اسرائیل سے تجارت، سرمایہ کاری اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے والے ممالک کے لیے کلمہ خیر کہنا بڑا مشکل ہے۔ سری نگر عمار مال اگرچہ ایک نجی ادارہ قائم کررہاہے لیکن اس کے نتیجے میں کشمیریوں میں سخت اضطراب پایاجاتاہے۔ لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا حکومت پاکستان اس قدر کمزور اور بے بس ہوگئی ہے کہ اس کے حلیف ممالک بھی اس کی حساسیت کا خیال نہیں رکھتے۔ یا پھر یہ طرزتغافل گزشتہ چار پانچ برسوں سے جاری پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ جن کے نتیجے میں کشمیر ایشو پاکستانی میڈیا سے غائب ہوچکا ہے۔ زبانی کلامی دعووؤں اور تقریروں کے علاوہ وفاقی حکومت اور گفتار کے غازی بلال بھٹو زرداری کی وزارت خارجہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ حالانکہ آزادکشمیر اورگلگت بلتستان میں عالمی مالیاتی ادارے یا ممالک سرمایہ کاری کرتے ہیں تو بھارت انہیں روکنے کی بھرپور مہم چلاتاہے۔ اس کی وزارت خارجہ ان ممالک کو ان دونوںخطوں میں سرکایہ کاری سے روکنے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتی ہے۔مثال کے طور پر چند ماہ قبل امریکی سفیر نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا تو بھارتی وزارت خارجہ نے نہ صر ف اس دورہ کا برا منایا بلکہ امریکی صدر تک سے احتجاج کیا گیا۔اس کے برعکس ہماری وزارت خارجہ عمارگروپ کی سرمایہ کاری پر خاموشی کی چادر اوڑھے جھوٹا موٹھا بیان بھی جاری کرنے کو تیار نہیں۔ عالم یہ ہے کہ چند ہفتے قبل بھارت کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے کنٹرول لائن کے نواح میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیلم ویلی میں پنڈتوں کے مقدس مقام شادرہ تک رسائی کے لیے کرتاپور کی طرح کا کاریڈور بنایا جائے گا۔ امیت شاہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے کاریڈور بنانے کا مطالبہ کردیا۔بھارت میں اس قرارداد پر بغلیں بجائی جارہی ہیں۔حالانکہ چند برس قبل مظفرآباد میں طاقت ور حلقے کنٹرول لائن کے ذریعے جاری تجارت اور کشمیریوں کی آمد رفت کے سخت نقاد ہواکرتے تھے او رجو کوئی اعتماد سازی کے ان اقدامات کی حمایت کرتا اسے ’’بلیک لسٹ‘‘ کردیاکرتے تھے۔ دانشورانہ افلاس اور پستی کا یہ عالم ہے کہ قانون ساز اسمبلی نے نہ جانے کس کی شہ پر پنڈتوں کے لیے کاریڈور کامطالبہ کردیا ہے لیکن کنٹرول لائن کے ذریعے ہونے والی آمدورفت اورتجارت کی بحالی کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں بولا۔اس کے باوجود کوئی قابل ذکر صدا ئے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔