اِسرائیل میں گزشتہ چند ہفتوں سے نیتن یاہو حکومت کے پالیسیوں کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا ہے جس نے بالآخر اسرائیلی حکومت کو عارضی طور پر اپنی اعلان کردہ پالیسی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے تاہم اس سے یہ اخذ کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہوگا کہ اب اسرائیل کی فلسطینی مسلمانوں کے متعلق پالیسی میں قابلِ ذکر تبدیلی آئیگی اور فلسطینی مسلمان آبادی کو کوئی ریلیف مل سکے گا کیونکہ اِسرائیلی عوام کا اِحتجاج ان کے اپنے حقوق کے متعلق ہے جبکہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے اِسرائیل کی تمام سیاسی پارٹیوں کا مؤقف تقریباً یکساں ہے۔ پچھلے سالوں میں، ماہِ رمضان کے دوران اسرائیلی پولیس نے یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے احاطے کے ارد گرد جمع فلسطینیوں پر حملے کیے۔ اس سال بھی یہودیوں کا مذہبی تہوار پاس اوور اور عیسائیوں کا تہوار اِیسٹر رمضان کے دوران ہی منائے جائیں گے۔ 2021 میں، یروشلم میں فلسطینی خاندانوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی نے پورے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا جبکہ رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے مسجد الاقصی پر چھاپوں نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا جس کے چار دن بعد غزہ پر 11 روزہ اسرائیلی حملہ شروع ہوا جو بظاہر حماس کی طرف سے اسرائیل کی طرف داغے گئے راکٹوں کے جواب میں تھا۔ اِسرائیل میں حالیہ اِحتجاجی مظاہروں کی وجہ سے دائیں بازو کی پارٹیوں پر مشتمل نیتن یاہو حکومت جس میں اَلٹرا نیشنلسٹ اور اَلٹرا آرتھوڈوکس یہودی جماعتیں شامل ہیں فی الحال اِصلاحاتی عمل پر عمل درآمد سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اِسرائیل کی دائیں بازو پر مشتمل موجودہ حکومت اِصلاحات کے ذریعے ججوں کی تقرری کرنے والی کمیٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اِن اِصلاحات سے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بنیادی اکثریت سے کالعدم قرار دینے کا اختیار ملے گا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم کو عہدے کے لیے نااہل قرار دینا اور انہیں اقتدار سے ہٹانا مشکل ہو جائے گا حالانکہ لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اِسرائیلی وزیرِاَعظم نیتن یاہو کو اِس وقت بھی کرپشن کے مقدمات میں "ٹرائل" کا سامنا ہے۔ جہاں تک آزاد اور خود مختار فلسطین کی ریاست کے قیام کا تعلق ہے بنیامین نیتن یاہو کی زیرِ قیادت سخت گیر اِسرائیلی حکومت نے چند رہنما اصول جاری کیے ہیں، جن میں سے پہلا وعدہ "اِسرائیل کی سرزمین کے تمام حصوں میں آباد کاری کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے کا ہے" جبکہ "عرب اِسرائیل تنازعے" کا خاتمہ، اِیران کے جوہری پروگرام کو روکنا اور اِسرائیل کی فوجی صلاحیت کو بڑھانا ان کی اَوّلین ترجیحات میں شامل ہے حتیٰ کہ حکومت کے بعض وزراء نے مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کو توسیع دینے کا عہد کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام کی کھل کر مخالفت کی ہے جن میں وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ شامل ہیں جنہوں نے 20 مارچ سوموار کے روز ایک بیان دیتے ہوئے فلسطینیوں کے وجود سے انکار کیا۔ اِس سے پہلے یکم مارچ کو، انہوں نے کہا کہ نابلس کے قریب فلسطینی قصبے حوارا کو "مٹا دیا جانا چاہیے"۔ اِسرائیلی حکومت نے 20 مارچ پیر کی رات دیر گئے اِسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کے ذریعے ایک ترمیم منظور کی ہے جس کے تحت اِسرائیلیوں کو شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں 2005 میں خالی ہونے والی چار غیر قانونی بستیوں کو دوبارہ آباد کرنے کا موقع ملے گا۔ قانون سازی کی حمایت میں 31 ووٹ اور مخالفت میں 18 ووٹ آئے۔ اس پیشرفت سے اسرائیلیوں کو ہومش، سانور، کدیم اور گنیم کی خالی کردہ بستیوں میں دوبارہ آباد کیا جا سکتا ہے۔ یہ سبھی بستیاں فلسطینی شہروں جنین اور نابلس کے ارد گرد واقع ہیں۔ یاد رہے کہ 650,000 اور 700,000 کے درمیان اسرائیلی آباد کار سینکڑوں غیر قانونی یہودی بستیوں اور چوکیوں میں رہتے ہیں، جن کی اکثریت یا تو مکمل یا جزوی طور پر نجی فلسطینی اَراضی پر، مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں تعمیر کی گئی ہے۔ اگست 2005 میں، اس وقت کے وزیر اعظم ایریل شیرون کی طرف سے لاگو کیے گئے علیحدگی کے منصوبے کے تحت اسرائیل نے محصور غزہ کی پٹی اور شمالی مغربی کنارے میں واقع 21 غیر قانونی بستیوں میں سے 9,000 سے زیادہ آباد کاروں کو ہٹا دیا تھا۔ اَب موجودہ اسرائیلی حکومت نے نو چوکیوں کو قانونی حیثیت دینے اور موجودہ بستیوں کو وسعت دینے کے لیے قانون سازی کے ساتھ مکمل طور پر کام شروع کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کی زیر قیادت حکومت میں کئی اعلیٰ شخصیات خود سخت گیر آباد کار ہیں جن میں وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ جو نابلس کے قریب کیدوم میں رہتے ہیں جبکہ قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر حبرون کے قریب کریات اربع میں رہتے ہیں۔ اِسرائیلی بستیوں میں ہومش کی خالی بستی، خاص طور پر، فلسطینیوں اور اِسرائیلی آباد کاروں کے درمیان کشیدگی کا مرکز رہی ہے، جنہوں نے اس جگہ کو مستقل طور پر دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اَگرچہ تمام اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے مگر ہومش کو اسرائیلی قانون کے تحت بھی غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِسرائیلی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ یہ زمین قریبی گاؤں برقع کے نجی فلسطینی مالکان کی ہے۔ فلسطین اور اِسرائیل کے مابین اختلافی اِیشوز میں مشرقی یروشلم کی حیثیت اور فلسطینی مہاجرین کی واپس اپنے آبائی علاقوں میں آبادکاری مرکزی نوعیت کے حامل ہیں۔ فلسطینی مہاجرین جو 1948ء سے لڑی جانیوالی مختلف جنگوں کے نتیجے میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں اب اسرائیل اِنہیں واپس اَپنے علاقوں میں آباد ہونے کا حق نہیں دیتا کیونکہ فلسطینی مہاجرین کی اِن علاقوں میں آباد ہونے سے اسرائیل کی موجودہ آبادی میں فلسطینیوں کی شرح تناسب میں خاطر خواہ اضافے کا امکان ہے۔ دوسری طرف فلسطینی مسلمانوں کی سیاسی قیادت دو بڑے گروہوں میں منقسم ہے جو بہت حد تک اپنے گروہی سیاسی مفادات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں جس کا براہِ راست نقصان فلسطینی عوام برداشت کررہے ہیں اور فلسطین کا ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام مشکل بنتا جارہا ہے۔ مغربی کنارے کے علاقے پر حماس کی حکومت ہے اور غزہ میں محمود عباس کی قیادت میں الفتح نامی تنظیم کی حکومت قائم ہے جبکہ ڈیڑھ دہائی سے اِنتخابات نہیں ہوئے جس سے فلسطینی مسلمانوں کی حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام بھی ایک خواب کے طور پر رہ گیا ہے جس کا فلسطین اِیشو کو بہر حال نقصان پہنچا ہے کیونکہ فلسطین کے مسلمان ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے محروم ہوگئے ہیں جبکہ دوسری طرف اِسرائیل کی سیاسی قیادت اسرائیلی ریاست کی تعمیروترقی جیسے اپنے بنیادی اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ فلسطینی مسلمان اپنی صفوں میں اِتحاد پیدا کرتے ہوئے اندرونی اور بیرونی محاز پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہوسکے اور فلسطین کے بے گھر مسلمان واپس اپنے آبائی علاقوں میں آباد ہوسکیں۔