وقت نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں اور پیچھے کیا کچھ کر آئے ہیں یہ بھولتے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی نہیں سمجھ پا رہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ درست ہو رہا ہے یا نہیں۔ہمیں تو پوری سچائی سے آج تک کوئی یہ بھی نہیں سمجھا سکا کہ قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی اتنی پستی میں کیسے گر گئی۔ مہنگائی تمام سرحدیں پار کر رہی ہے اس کو روکنے کے بجائے روکنے والے اس کا رخ بڑی کمال ہوشیاری سے 23کروڑ عوام کی طرف موڑ رہے ہیں۔نواز شریف کی قانونی گرہیں کھل رہی ہیں اور عمران خان قانونی بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ہم یہ پیچ و خم کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاست کو کھیل کی طرح جانچنا چاہیے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دستک کی آواز کو سنتے نہیں۔ آپس میں مخالفت اور اختلاف رائے کو نفرت اور حقارت میں بدل دیا ہے۔ کم از کم ایک دوسرے کو چین سے تو جینے دو۔ مفاہمت کے کوئی نہ کوئی خدوخال تو طے کر لئے جائیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے رہیں گے تو رفوگری کون کرے گا۔ نواز شریف تین بار ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے تجربے کے ساتھ ساتھ نکالے جانے کی تلخی کا مزا بھی چکھ چکے ہیں ۔ گزرے پانچ سال بدترین معاشی سماجی سیاسی اخلاقی انحطاط کا دور رہا۔ حکمران طبقوں اور بااختیار لوگوں کی ناقص پالیسیوں نے عام پاکستانی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ماضی کو کوئی نہیں بدل سکتا اور تاریخ چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے کہ ہم سب سے پے درپے غلطیاں ہوئی ہیں۔ مقبولیت کے سروے آ رہے ہیں ہم استدلالی مغالطے کا شکار ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی جھوٹ سچ کی قلابازیوں نے کروڑوں اسمارٹ فونز ہاتھ میں تھامے لوگوں کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق سہانے اور ڈرائونے خواب دکھانے کی جو نان اسٹاپ مہم چلا رکھی ہے اور اس کے نتیجے میں پوری قوم کو اس مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟فیصلہ ساز ہوں ‘ عدلیہ ہوں یا سیاسی کھلاڑی سب اپنا اپنا ’’کھیل‘‘ کھیل رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ ان میں سے کس کے پاس ملک کو آگے لے جانے کا کیا روڈ میپ ہے؟ملکی قرضے کیسے اتارے جائیں گے؟ مہنگائی کو کم کرنے کا میکنزم کیا ہے؟ آمدنی اور اخراجات کا توازن کیسے برقرار رکھا جائے گا؟ معدنی وسائل کی برآمد کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ ۔ الیکشن‘ الیکشن کا شور کرنے والے کم از کم یہ تو سمجھائیں کہ پٹرولیم کی قیمتوں کو ایک حد تک کیونکر کنٹرول کیا جا سکے گا۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں جس طرح نجی شعبہ وارداتوں میں مصروف ہے۔ اس میں لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے لوگوں کا درد رکھنے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدانوں کے پاس کیا ترکیب ہے۔ جس ملک کی قومی ایئر لائن کے پاس جہاز اڑانے کے لئے ایندھن نہ ہو اور اس پر طرہ یہ کہ اس ملک کی فضائوں میں اڑنے والی نجی ایئر لائنز جیب کتروں کی طرح 17سے 20ہزار کا ٹکٹ 50ہزار میں فروخت کرنے لگیں۔ تو اندازہ کیجئے کہ ہمارا نظام کتنا بے بس اور لاچار ہے جو ایسی کھلم کھلا وارداتوں کو نہ روک سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو پروان چڑھتے کم اور برباد ہوتے زیادہ دیکھا ہے اس لئے عام آدمی کے ذہن میں یہ سوالات کلبلاتے رہتے ہیں کہ 75سال سے چلتی اس فلم کا ہدایت کار کون ہے؟اس فلم کی کہانی کس نے لکھی ہے۔ یہ کردار کس نے تفویض کئے۔ ہم سچ بولنے اور سچ سننے سے نہ جانے کیوں گھبراتے ہیں اس بات کو چھوڑیں کہ کئے کی سزا اور جزا کب ہو گی لیکن کم از کم اتنی ہمت اور سچائی کی قوت تو ہو کہ ہم اعتراف جرم کر سکیں۔ غلطیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا نہ دیں لیکن ان کی نشاندہی تو کریں۔ قصور وار کو کٹہرے میں نہ کھڑا کریںلیکن یہ سوال تو پوچھا جائے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور کیوں ہوا سچ بول کر سچ کہہ کر اور سچ کا ادراک کر کے ہی ہم اس سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں کہ اس ملک کا نظام کن حماقتوں اور خود غرضوں کی بھینٹ چڑھا۔ یہ سماج اس بُری طرح کیسے تقسیم ہوا ہم نے اپنی چالاکیوں سے ایک دوسرے کے حق پر نقب لگائی ،جن لوگوں سے کوتاہیاں ہوئیں، وہ اپنی جرائم جیسی کوتاہیوں کا جائزہ تو لیں اپنے دور میں فخریہ لمحات کو آپ نے فکریہ لمحات کیوں بنایا۔ آپ لوگ غلط کو سچ اور سچ کو غلط ثابت کرنے کے لئے کب تک یہ استدلالی جنگ لڑتے رہیں گے۔ نئی اور روشن منزل کی طرف پیش قدمی کے لئے اپنے اپنے گریبانوں میں تو جھانکنا ہی ہو گا ہم اپنی تاریخ میں کتنے سانحات سے دوچار ہوئے حقیقت جاننے کے لئے کتنے کمیشن بنائے گئے۔ ہم آج تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سیاسی حماقتیں اور فیصلے کارفرما تھے یا پھر ہمیں فوجی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی جماعتیں تسلیم کیوں نہیں کرتیں کہ انہوں نے کب کب اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال کیا اور اپنے مخالفین کی صفوں میں نقب لگائی جب ہی تو ہماری تاریخ میں ایسے فیصلے ہوئے کہ چابی شہر میں داخل ہونے والے پہلے شخص کے ہاتھ میں تھما دی جائے گی۔روزانہ نئے نئے ڈھنگ سے مقبولیت کے سروے آ رہے ہیں قسمت کی ہما کس کے سر بیٹھے گی، کچھ عدالتی اور انتظامی فیصلے آنے والے وقت میں انتخابی فیصلوں کی خبر دیتے رہے ہیں۔ اسلام آباد کے چائے خانوں بیٹھکوں اور آستانوں سے خبریں لانے والے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس کی تشریح میں دن رات ایک کئے دے رہے ہیں۔انہیں ویوز اور لائیکس چاہیئں خبر کی حقیقت کیا ہے وہ اس سے بے پرواہ ہیں۔ عمران کے حمایتی سمجھ رہے ہیں کہ مقبولیت کا چیک اسی وقت کیش کرایا جا سکتا ہے جب انتخابات سو فیصد منصفانہ ہوں۔ حالات نے سیاست کو وہیں لاکھڑا کیا ہے جہاں 30سال پہلے تھی۔ نہ چہرے بدلے نہ سیاستدانوں کا انداز کوئی کیونکر اندازہ لگائے کہ اس سفر میں کیا کھویا کیا پایا۔ اس کھیل میں عمران خان نسبتاً نئی انٹری ہیں جو اس خمار میں کہ انہیں لاکھوں نوجوانوں کی حمایت حاصل ہے وہ ان قوتوں کو چیلنج کر بیٹھے جن سے ٹکرانے کا نتیجہ انہیں جیل تنہائی میں سمجھ آ گیا ہو گا۔ پھر 9مئی کو پاکستان کی تاریخ سے نابلد لیڈر کی طرح ایک غیر ذمہ دارانہ جست لگا کر اپنی پارٹی تڑوا بیٹھے۔ آنے والے دنوں میں بہت سی حیران کن ملاقاتیں متوقع ہیں ،نئی صف بندیاں ہوں گی سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ اور سعودی عرب نئے حالات میں نواز شریف کی عوامی سیاست کا پیوند لگا کر اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ضمانتیں اور سہولتیں بتا رہی ہیں کہ نئے الیکشن کا شہسوار چن لیا گیا ہے کیونکہ بے دخل کئے گئے نواز شریف کی فقید المثال واپسی اس منظر نامے کا اشارہ ہے لیکن اس رومانس میں بھی خدشات اندیشے اور شبہات موجود ہیں اور یہ بھی کہ شیر کی پشت پر بیٹھا ہوا سوار اترنے کے لئے تیار بھی ہے یا نہیں۔ابھرنے والے سوالات اپنے جوابات سے زیادہ معنی خیز ہیں۔