پاکستان میں جمہوری سیاسی اداروں کی کارکردگی کو عموماــــــتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس تناظر میںطاقتور اسٹیبلشمنٹ ( انتظامی اور عسکری اشرافیہ ) کی موجودگی اور اس کے موثر دبائو کو بنیاد ی رکاوٹ کے طورپر پیش کیا جاتا ہے۔اویہ کچھ غلط بھی نہیں۔تاہم سیاسی اداروں کی قابل تنقید کارکردگی کی ساری ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنا مکمل حقیقت نہیں۔ سیاسی اداروں کی ناقص کارکردگی کے لئے سیاست دان بھی کسی طرح بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔جمہوری سیاسی اداروں کی بہتر کارکردگی کے لئے سیاست دانوں کے رویوں ، جمہوری اداروں سے ان کی وابستگی کی نوعیت اور اس کے فروغ کے لئے کی جانے والی ان کی کوششوں کا معروضی تجزیہ کئے بغیرجمہوری سیاست اور جمہوری اداروں کو بہتر بنانے کے عمل کا آغا ز نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی سیاسی نظام کی کامیابی اس ریاست کے سماجی ماحول اور اس میں مروج اقدار کی کیفیت پر منحصر ہے ۔ سیاسی نظام کو اپنی تشکیل ،وظائف کی انجام دہی اور ترقی کیلئے توانائی اسے موزوں اور معاون سما جی ماحول سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اگر سیاسی نظام اور سماجی ماحول میں مطابقت نہ ہو تو پھر سماجی ترقی میں سیاسی نظام کا کردار محدود اور مجہول رہتا ہے اور اپنے بنیادی اہداف کی تکمیل سے عاجز جیسا کہ پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام جسے جب جب بھی موقع ملا سیاستدان اسے ترقی اور تسلسل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ کہنا بہت آسان بھی ہے اور ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کا راستہ بھی کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو کام نہیں کرنے دیتی مگر اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ جمہوریسیاسی نظام میںاسٹیبلشمن کے مقابل سیاستدان کمزور کیوں ہیں؟ ان کا سماجی پس منظر کیا ہے اور وہ جمہوری اقدار پر کس حد تک کاربند ہیں؟ یہ وہ حقیقتیں ہیں جن کا جاننا بہت ضروری ہے۔ پاکستانی سماج بنیادی طور پر قبائلی مزاج پر استوار ہے۔ جہاں برادری ازم ، لسانی اور علاقائی عصبیتیں ، مذہبی افتراق ،معاشی ناہمواریاں ،سماجی اونچ نیچ کی رکاوٹیں،اور قانون سے انحراف کے رجحانات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔جاگیردایت پر مبنی سرپرستانہ مزاج جس کا زرعی تناظر اگرچہ محدود اور کمزور ہو چکا ہے مگر اس کا سماجی اورثقافتی غلبہ اب بھی موئثر طور پر موجود ہے۔جس کے باعث پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام اول تو پوری طرح فعال نہیں ہو پاتا تو ثانیاََ اس کے ثمرات سے سماج بالعموم محروم ہی رہتا ہے۔ـــــــــــــپاکستان میں سیاستدانوں کی غالب اکثریت ابتدا سے ہی دیہی سماج سے جڑی زرعی معیشت پر استوار جاگیر دارنہ ماحول کی پروردہ رہی ہے۔ جن کی شناخت قانون سے ماوراء طاقت کے اظہار سے ہوتی ہے ،ان کا رہن سہن ،رہائش ،اور سرپرستانہ کردار ا نہیں سماج میں ممتاز حیثیت کا حامل بناتا ہے۔سرپرستانہ کردار ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے علاقے کے انتظامی اداروں میں اثر و رسوخ رکھیں ۔ سیا سی اداروں میں ان کی شمو لیت کی اہم وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بن کر مقامی انتظامیہ پر اپنا اثر قائم کرنے میں کامیاب ہوں۔ا س کے لئے ا نتخابات میں کامیابی کے لئے یہ کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی پوری تاریخ جبر،دھونس ، دھاندلی، اور انتظامی دبائو کے الزامات کی زد میں رہی ہے۔پاکستان میں سیاست دان جمہوری سیاسی نظام کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کا سماجی پس منظر اس نظام کی مبادیات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ نظام کے قیام اوراستحکا م کے لئے جس ماحول اور اقدار کی موجودگی ضروری ہو تی ہے اس پر ان کی توجہ نہیں ہوتی یا وہ اس پر بوجوہ توجہ دینا ہی نہیںچاہتے۔پارلیمانی جمہوریت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جما عتوں کا کا داخلی نظم جمہوری اقدار سے متصف ہو ۔ واضح منشور کی موجودگی اور اس کی روشنی میں پالیسیوں کی تشکیل ہو ، ان میںقیادت کا موئثر اور شفاف انتخابی نظام کار فرما ہو، اور ان میںسیا سی کارکنوں کی تربیت کا تسلسل ہو اور وہ فیصلوں میں حقیقی مشاورت کے اصول پر فعال ہوں ۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں اس معیار پر کمترین سطح پر بھی فعال نہیں ہیں ۔سیاسی جماعتیں کچھ خاندانوں کے مفادات کی نگہبان ہو کر جمہوری سیاست کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں پھر یہ کہ انتخابات جو حکومت کی تشکیل اور تبدیلی کا ذریعہ ہوتے ہیں ان کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے پر کوئی اشتباہ نہ ہو۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا کبھی نہیں رہا۔ انتخابات کے نتائج کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرنے کی روایت بھی پاکستان میں ہمیشہ سے ہی کمزور رہی ہے ۔ جس کے نتیجے میں حکومتیں عدم استحکام کا شکار رہی ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ انتخابات کے بعد جو حکومت قائم ہو اس کے استحکام اور تسلسل کی سیاسی اور قانونی ضمانت موجود ہو تا کہ منتخب ہو نے والی حکومت آزادی اور پوری توجہ کے ساتھ اپنے منشور کے مطابق پالیسیوں کا نفاذ کر سکے۔پارلیمنٹ کی کارروائی اکثریتی جبر سے مبرا ہو اور یہ کہ قانون کے یکساں نفاذ اور عملداری کی صورت نمایاں ہو۔یہ ہیں وہ بنیاد ی امور جن کا اختیار کیا جانا جمہوری سیاسی نظام کی کامیابی اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لئے ضروری سمجھے گئے ہیں ۔ اظہار رائے کی آزادی، دوسرے کی رائے کا احترام ، اور معاشی و سماجی مساوات کے مواقع ایک جمہوری سماج کا بنیادی تشخص تشکیل کرتے ہیں۔ان تمام سیاسی جمہوری اور سماجی اقدار کے آئینے میں پاکستانی سماج کی تصویر بڑی دھندلی ہے۔ قانون کے نفاذ کی کمزور کیفیت کی موجودگی میں با اثر طبقات اپنے تمام غیر قانونی اقدامات کے باوجود خود کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اس صورت حال کا تسلسل ریاست اور اس کے اداروں پر عوام کے اعتماد کو کمزور کردیتا ہے جمہوری سیاسی نظام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت و ریاست کے معاملات میں عوام کی موئثر شرکت کو یقینی بنائے۔