آج ایک بار پھر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ’’تاحیات نااہلی کیس‘‘ کی سماعت ہو رہی ہے۔ یہ درخواست دو سیاستدانوں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی طرف سے دائر کی گئی تھی، کیوں کہ ان دونوں رہنمائوں کو تاحیات نااہلی کا سامنا ہے۔ ہو سکتا ہے آج سماعت مکمل ہو جائے اور کیس کا فیصلہ بھی جاری کر دیا جائے، یا اُسے ’’محفوظ‘‘ کر دیا جائے۔ قانونی ماہرین نے اس حوالے سے موقف اختیار کیا ہے کہ ماضی میں تاحیات نااہلی کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 62اور 63کو الگ الگ دیکھ کر غلط فیصلے کیے گئے۔ آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) میں نااہلی کی مدت نہیں لکھی لیکن ماضی میں سپریم کورٹ نے تشریح کرکے اسے تاحیات نااہلی سے تعبیر کیا تھا۔ اگر نااہلی 62 (ون) (ایف) کے بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو اس سے نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گے۔ اب اس کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232 ماضی کے فیصلوں اور اس کیس کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس تمام تر کارروائی اور موجودہ صورتحال کے مطابق اس بات کے قوی امکان ہیں کہ دونوں مذکورہ سیاستدانوں کی نااہلی ختم ہو جائے گی۔ اور وہ الیکشن لڑ کر اگلے چند سالوں کے لیے اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جائیں گے۔ لیکن اُس کے بعد کیا ہوگا یہ اُن کو بھی علم نہیں ہے۔ اُس کے بعد یہ ہوگا کہ آج جس کے لیے تخت و تاج پوشی کا اہتمام کیا جا رہا ہے، وہ کل مجرم ہوگا اور آج کا مجرم کل حکمران بن کر راج کرے گا۔ لیکن اس دوران ہمارا سوال یہ ہے کہ قانون کہاں ہے؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ نواز شریف کو انہوں نے صحیح ڈسکوالیفائی کیا تھا یا جہانگیر ترین کا فیصلہ میرٹ پر تھا،،، بات یہ ہے کہ ایک شخص ڈسکوالیفائی کیسے ہوگا، کیسے نہیں،،، یہ بات کلیئر کیوں نہیں ہے؟ اس حوالے سے میرے خیال میں تو قانون خود کلیئر نہیں ہے،،، تبھی تو چیف جسٹس صاحب فرما رہے ہیں کہ اگر آج کی شرائط کے مطابق جناح بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی ڈسکوالیفائی ہو جاتے۔ لہٰذابادی النظر میں تو پھر یہ ساری جنگ ہر بار اقتدار کے حصول کے لیے ہوتی ہے کہ جب جس کو دل چاہا بحال کردیا اور جس کو دل چاہا پابند سلاسل کر دیا۔ ہم یہ حرکات تو کم و بیش گزشتہ 30سال سے تو بہت ہی قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ جس ن نوازشریف کودس سال کے لیے ملک سے نکال دیا تھا،،، پھر وہی نوازشریف بعد میں ٹھیک کیسے ہوگیا؟ لیکن اس تمام ترصورتحال میں ایک بات تو طے ہو چکی ہے کہ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں، اُنہیں کم از کم عوام اقتدار میں لے کر نہیں آتے ۔ اور پھر یہی بات درست بھی لگتی ہے کہ ملک کے معاشی طور پر غیر مستحکم ہونے، ملک کے پیچھے جانے اور ترقی نہ کرنے میں کم از کم عوام کا ہاتھ نہیںہے۔ یہ ہاتھ اُنہی کا ہے جو اقتدار کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر یقین رکھتے ہیں! پھر یہ بات نئی بھی نہیں کہ اقتدار کے حصول کے لیے غارت گری آج سے نہیں ہزاروں سال سے ہے۔ چنگیز خان سے لے کر ہٹلر تک سبھی نے اقتدار کیلئے اپنے محسنوں کو بھی کچل ڈالا۔ اس سے بھی پہلے کی بات کر لیں۔ تو حضرت امام حسین ؓؓ اور ان کے معزز خانوادے کو میدانِ کربلا میں شہیدکر دیا گیا۔ میدانِ کربلا میں اُس شخصیت کو خون میں نہلا دیا گیا جسے حضور اکرمﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ سیدنا امام حسینؓ حق اور اسلام کی سربلندی کیلئے میدان میں اُترے تھے جبکہ دوسری طرف اقتدار کی ہوس نے آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ رکھی تھی کہ مارنے والوں نے یہ تک خیال نہ کیا کہ وہ جس پر تلواریں سونت رہے اور تیر برسا رہے ہیں‘ اُس ہستی کا تعلق کس عظیم گھرانے سے ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کیلئے اتنا بڑا ظلم ڈھانے والا محض ساڑھے تین سال تک برسراقتدار رہا اور 39 برس کی عمر میں یہ کالک ہمیشہ کیلئے اپنے منہ پر مل کر دنیا سے چلا گیا۔ دوسری طرف حق کی خاطر آواز بلند کرنے کی پاداش میں موت کو گلے لگانے والی ہستی رہتی دنیا کیلئے ایک مینارہ نور کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ پھر واقعہ حرہ بھی اقتدار کی ہوس کا ہی شاخسانہ تھا، اسے سانحہ کربلا کے بعد دوسرا بڑا شرمناک سانحہ کہا جا سکتا ہے۔ مدینہ پر شامی افواج نے چڑھائی کی تھی جس میں انہوں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کیں اور مدینہ میں قتل عام کیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 63ھ میں پیش آیا اور واقع حرہ کہلاتا ہے۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے دس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا جس میں بہت سے صحابہ کرامؓ اور ان کی اولاد، تابعین اور حفاظ قرآن و حدیث کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے کیا گیا،،، پھر خلافت عثمانیہ کی مثال سب کے سامنے ہے،،، جس میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے 18بھائیوں کو قتل کردیا گیا۔ پھر یہی نہیں اُس کے بعد کے ادوار بھی دیکھ لیں ،، اورنگ زیب عالمگیر نے اقتدار حاصل کیاتو اُس نے اپنے والد شاہجہاں کو معزول کرکے نظر بند کر دیا۔ بہرحال آج کل ملک میں کاغذاتِ نامزدگی کی مستردگی کے حوالے سے کافی زور و شور سے بحث جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے 7473امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جن میں سے 1024امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے جب کہ 6449 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی درست قرار دیے گئے۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ اُس کے 90فیصد رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب الیکشن قریب آرہے ہیں اور ایک جماعت کو دیوار کے ساتھ جبکہ دوسری کو سر پر بٹھایا جار ہا ہے۔ اقتدارکی ہوس انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتی ہے۔ لیکن اس کا آخر میں انجام برا ہی ہوتا ہے!