سال نو 2024 کا آغاز ہوچکا ہے، ہر نیا سال اپنے آغاز کے ساتھ صحت مند ذہنوں میں متعدد چیلنجز کو ازسرنو ابھارتا ہے، دینی و دنیاوی ہر قسم کی ترقی کے متلاشی اپنے اہداف طے کرتے ہیں، امیدوں، خواہشات اور اپنی اصلاح کو بروئے کار لانے کی کوششوں کا نئی توانائی سے آغاز کیا جاتا ہے، ان تمام مراحل کو انفرادی اور اجتماعی طور پر تحریک امید دیتی ہے، اگر کسی فرد یا معاشرے سے امید چھین لی جائے تو زندہ جسم مردہ روح تباہی ایسے مجسمے سامنے آتے ہیں کہ اس طوفان تباہی کا تریاق محض امید کا بیج کاشت کرنا ہے ۔کیا ہم نے اپنے معاشرے میں امید کے بیج بوئے ہیں یا امید کی کھیتی سے کونپلیں پھوٹنے سے قبل ہی دہقان کو روزی سے محروم کر دیا گیا ہے؟ جواب ہر شخص جانتا ہے، چاہے وہ شعور رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، ایک نقطہ البتہ ناقابل نظر انداز ہے کہ موجودہ دور میں حالات حاضرہ پر عدم توجہی ممکن نہیں، پل پل کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے ہر اس بشر کی دسترس میں ہیں، جس نے ہاتھ میں موبائل تھام رکھا ہے اور ہاتھ کسی ریڑھی بان کا بھی موبائل سے خالی نہیں، لہذا آمدہ انتخابات سے بندھی تمام امیدیں معدوم ہونے پر قوم ماتم کدہ نظر آتی ہے، کتابوں کے صفحات کی ورق گردانی اپنی جگہ بزرگ صحافی اور تجزیہ نگار تک ایسی کوئی مثال سامنے لانے میں ناکام ہیں جس سے ثابت ہوسکے کہ ایسے انداز میں کوئی ایک صاف شفاف انتخاب ماضی کے کسی حصے میں آیا ہو۔ سرتسلیم خم قیام پاکستان کے 23 سال بعد پہلے عام انتخابات کا انعقاد 1970 میں ممکن ہو سکا، نتیجہ جس کا اتنا بھیانک نکلا یا بنا دیا گیا کہ آج تک کوئی انھیں بھلائے نہیں بھلا پاتا، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ اور اس سے جنم لینے والی ہولناکی کے باب تاحال نامکمل محسوس ہوتے ہیں، 1977 کے انتخابات کے فوری بعد 1985 تک انتخابی سیاست کے دروازے پھر بند ہو کر رہ گئے اور جائے پناہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کی صورت میں سامنے ائی۔ 1988 تک آئی جے آئی کے تماشے نے ساری المناک داستان خود ہی بیان کر دی، 1990 سے 1997 تک تین عام انتخابات، حکومتوں کے اتار چڑھاؤ اور تمام تر رسہ کشی گیارہ سالہ شخصی اقتدار کے ردعمل کے طور پر ابھری، 12 اکتوبر 1999 کو شروع ہونے والا کھیل 18 فروری 2008 کے عام انتخابات تک اپنے منطقی انجام کو پہنچا، ان انتخابات سے تین ماہ قبل مخترمہ بینظیر بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا، دشمن ہمیشہ کی طرح طاق میں رہا اور اقتدار کی چاہ میں ہم خود اپنے دشمن بنے رہے، محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی وفاق میں مخلوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ جمہوریت بہترین انتقام قرار دیدی گئی لیکن 2013 کے عام انتخابات سے پہلے جمہوریت کے سایوں میں ہر وہ زور آزمائی ہوئی کہ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑا، آخر کار 2018 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوتے ہی جہاں بانی چئیرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیر اعظم اپنے فلور آف دی ہاؤس میں پہلے خطاب میں کہا کہ ملک کو بے دردی سے لوٹا جاتا رہا، میں جب ان پر ہاتھ ڈالوں گا تو سب اکھٹے ہوجائینگے وہاں بلاول بھٹو زرداری نے سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ کر مبارک باد دی اور بانی پی ٹی آئی نے بھی مسرت میں غور سے الفاظ سنے بغیر ڈیسک بجا دیا، یہاں سے پی ٹی آئی اور روایت پسند سیاسی جماعتوں کے مابین وہ جنگ چھڑی جو عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے تادم تحریر مختلف محاذوں سے ہوتی ہوئی جاری ہے، اب سال نو 2024 کا آغاز ہوچکا ہے، 8 فروری 2024 کو انتخابات کے حوالے سے قبل از وقت وہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے، جس پر بے یقینی کا ماحول ہر جانب افراتفری کو جنم دے رہا پے، امید چھن جانے کے بعد والی کشمکش سے وہ معاشرہ گزر رہا ہے، جس نے دستور کے سانچوں میں ڈھل کر معاشرتی کروٹ کا تہیہ کر لیا تھا۔کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے مسترد ہونے تک کی خبروں کے بیج وہ کہانیاں ہیں جو سالوں لکھی اور سنائی جائینگی، تاریخ کا سینہ آخر چاک ہو کر رہتا ہے، یہ ازل سے ہوتا آ رہا ہے اور ابد تک ہوتا رہے گا مگر شکوہ خاکم بدہن یہ ہے کہ معاشرہ جن افراد کے مجموعہ کا نام ہے، وہ امید سے محروم کر دیا گیا ہے، اکثریت کی حمایت سے محروم کیا کبھی کوئی نظام چل سکا ہے یا کم از کم بروئے کار ثابت ہوسکا ہے؟ ہماری 76 سالہ تاریخ کئی سبق سناتی ہے مگر ہم نے سبق سیکھنا تھا نہ سیکھا! افسوس سال نو کا آغاز بھی عام آدمی کی صفوں سے ناامیدی ختم نہ کرسکا اور دنیا جہاں کے دلائل سناتی نگران حکومت ریلیف کا کوئی ناٹک بھی نہ کرسکی، ملک اور اس کی معیشت کو حالیہ بحران سے نکالنے کا واحد راستہ عام انتخابات کے انعقاد کی صورت میں دیکھا جارہا تھا لیکن، گلیاں ہو جان سنجیاں، تے وچ مرزا یار پھرے، والی کہانی کئی خدشات کو جنم دے رہی ہے، کیا پاکستان کی تاریخ میں 8 فروری کو جو منفرد انداز کے صاف شفاف انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں، اس کے نتیجہ میں معاشی و اقتصادی بے یقنی کا خاتمہ ہوسکے گا؟ کیا کم از کم سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوسکے گا؟ کیا لیول پلیئنگ فیلڈ کے نعروں کی گونج سے شروع ہونیوالا سیاسی کھیل کاغذات نامزدگیوں کے تناظر میں ہونے والے کھیل تماشوں پر ختم ہو جائیگا؟ کیا یہ انتخابات معاشرے کے عام افراد کو امید بہم مہیا کرنے کا سامان بنیں گے؟ اتنا ہی بتا دیجئے: کیا انھیں عام انتخابات کہا جاسکے گا؟