وطن عزیز میں کوئی دور عوام کی خوشحالی کا باعث نہیں بن سکا‘ہر دور میں محرومی مسلسل بڑھتی رہی۔ آج حالت یہ ہوچکیکہ لگتا ہے کہ عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائیگا۔ مہنگائی کا عالم ایسا ہے کہ غریب‘متوسط طبقہ بری طرح کچلا جاچکا ہے اور ہر روز مزید اسے کچلا جارہاہے۔ستم اس پر یہ کہ حکومت سیاست ترک کرنے کیلئے تیار نہیں جبکہ میڈیا پر بھی مہنگائی اور عوام کی محرومی کو زیادہ اجاگر نہیں کیا جارہا۔حکمران ہر روز‘ہر لمحہ مہنگائی کے بم گرارہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قومی اسمبلی میںمیں ڈمی اپوزیشن لیڈر موجود ہے۔میڈیا بھی وہ سوالات نہیں اٹھا رہا‘جس طرح کے سوالات مہنگائی پر عمران خان کے دور میں اٹھائے جاتے تھے۔اندازہ لگائیں کہ عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی 10سے 11فیصد کے درمیان تھی تو پورے ملک میں مہنگائی پر بھونچال برپا کیا جارہا تھا‘ہر سرخی اور ہر احتجاج مہنگائی کے عنوان سے ہوتا تھا لیکن آج جبکہ مہنگائی کی شرح 43سال کی بلند ترین سطح 31.55فیصد تک پہنچ چکی ہے تو ہر سو خاموشی ہے‘ایسا سناٹا ہے:جسے بے حسی‘جانبداری کا شاخسانہ قرار دینے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ موجودہ تیرہ جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم مہنگائی کے خلاف نہ صرف معرض وجود میں آیا بلکہ انہوں نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ بھی مہنگائی کے ایشو پر کیا۔گویا موجودہ حکومت ، جو ملک میں کہا جارہا ہے کہ 43 سالہ بلند ترین مہنگائی کا موجب بن چکی ہے‘وہ مہنگائی ختم کرنے آئی تھی۔ 43سالہ مہنگائی کی ریکارڈ کا ذکر اعداد و شمار کے تناظر میں کیا جا سکتا ہے مگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اعداد و شمار کے برعکس تمام بنیادی اشیاء خوردو نوش کی قیمتو ں میں جس حد تک خوفناک اضافہ ہوچکا ہے‘ادویات کی قیمتو ں میں 300 سے 500 گنا تک اضافہ ہوچکا‘تعلیم‘صحت سمیت ہر شعبہ عوام کی دسترس سے باہر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بجلی‘گیس کے نرخوں میں اس حد تک بھیانک اضافے کئے جا چکے ہیں کہ آئندہ موسم گرما کی آمد کے ساتھ جیسا کہ خدشات کا اظہار متعلقہ حلقو ں کی طرف سے کیا جارہا ہے‘بجلی کے بل اور بجلی کی لوڈشیڈنگ رہی سہی کسر نکال دے گی لیکن عوامی جذبات سے بے خبر حکمران ایک مرتبہ پھر پٹرول‘گیس‘بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا اس ضمن میں یہ کہنا درست ہے کہ حکومت کی تبدیلی کا سارا بوجھ عوام برداشت کر رہے ہیں‘بلاشبہ حکومت کی تبدیلی کی ساری سزا عوام بھگت رہے ہیں‘عوام کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے‘ بیشتر مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ کی طرف سے نوے روز میں الیکشن کروانے کے فیصلے کے بعد ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کسی جانب سے مہنگائی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔مارکیٹ کو کریش کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ ڈالر کے نرخوں میں اس حد تک اضافہ بلاجواز نہیں‘ اندازہ کیجئے:ڈالر اوپن مارکیٹ میں 300روپے تک فروخت ہوتا ہے‘آخر پس پردہ کیا جاری ہے؟ جو بھی ہو عوام کو اس کی سزا دی جا رہی ہے۔ تاہم چند مبصرین کی ایک دوسری رائے بھی ہے جن کے مطابق حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام ہے‘حکومت کارکردگی دکھا کر ڈیلور کرنے میں بری طرح فیل ہوچکی ہے‘جس بنا پر تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت ایک ناکام حکومت ہے‘یہی وجہ کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے نام پر معیشت کا ہر لحاظ سے بگاڑ کرنے کے بعد بھی وزیر خزانہ اسحا ق ڈار کے پاس اس کے علاوہ دکھانے اور کہنے کو کچھ نہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات مثبت پیش رفت کی جانب گامزن ہیں۔ حضوروالا! مقصد یہ ہے کہ آخر آئی ایم ایف کی قسط کب آئے گی؟ یہ قسط ایک ارب ڈالر سے کچھ اوپر ملنی ہے لیکن ہمارے نقصان کے ازالے کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم از کم 10ارب ڈالر سے او پر لے کے جانا ہے‘اس بارے میں حکومت کو حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے ہوںگے‘جس کی قلت یا قحط دکھائی دیتا ہے اگر حکومت ڈالر کو مصنوعی طور پر نہ روکتی تو ڈالر نے نہ تو افغانستان سمگل ہونا تھا اور نہ ہی ڈالر اندرون ملک ذخیرہ ہونا تھا‘اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور آج مسائل سب کے سامنے ہے‘اس وقت اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں تین فیصد اضافہ بھی کردیا ہے‘اب شرح سود 17سے بڑھا کر 20فیصد ہوگئی ہے‘جس کے باعث مہنگائی کی ایک نئی لہر سر اٹھائے گی‘ شہروں میں پہلے ہی ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 4.32فیصد بڑھ رہی ہے‘اس کے بڑھنے کے مزید خدشات جنم لے رہے ہیں‘جس کا واضح اشارہ شرح سود میں اضافہ ہے‘شہروں میں مہنگائی کے اثرات براہ راست دیہاتو ں پر مرتب ہوتے ہے‘ اسی لئے دیہاتو ں میں 4.01کے حساب سے مہنگائی بڑھ رہی ہے‘وزارت خزانہ کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار میں اعتراف کیا جاچکا:جولائی تا جنوری ترسیلات زر میں 11برآمدات میں 7.4‘درآمدات میں 20.9غیر ملکی سرمایہ کاری میں 44.2فیصد کمی ہوچکی ہے‘ وزارت خزانہ خود اعتراف کرتی ہے مہنگائی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ وزیر اعظم گزشتہ دنوں اعتراف کرچکے:تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی کا سامنا ہے‘وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خاں کہہ چکے:آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد عوام سے دشمنی ہوگی‘وزیر دفاع خواجہ آصف انکشاف کر چکے کہ معیشت دیوالیہ ہونہیں رہی بلکہ ہوچکی ہے۔اس پر عوام کی حالت زار کا اندازہ سب کو ہوجاتا ہے‘احساس کسے دلائیں‘جب احساس ان کے وجود میں شامل ہی نہیں‘ایسے حالات پر ارتضی نشاط نے خوب قلم کشائی کررکھی ہے: کرسی ہے‘تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے!! ٭٭٭٭٭