20دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ٹوٹے ہوئے ملک کا اقتدار سنبھالا اور 5جولائی 1977ء کو ان سے اقتدار چھین لیا گیا اور ان کا یہ ساڑھے پانچ سالہ اقتدار ایک علیحدہ سیاسی بحث ہے 5جولائی 1977ء سے 4 اپریل 1979ء تک جب انہیں پھانسی دی گئی یہ پورا وقفہ بھی ایک علیحدہ موضوع ہے راولپنڈی جیل میں موت کی کوٹھڑی میں بھٹو نے پاکستان کے عوام سے اپنا عہد مرنے سے پہلے۔ یوں بیان کیا کہ… ’’پاکستان کے عوام سے میرا عشق میری روح کا ہے اور یہ میرا ایک ناقابل تنسیخ ورثہ ہے۔ میرا خون پاکستان کی زندگی کے ساتھ دوڑتا ہے میں اس کی خاک اور خوشبو کا حصہ ہوں۔ لوگوں کے دکھوں میں میں ان کی آنکھوں سے بہتا ہوں اور جب وہ مسکراتے ہیں تو ان کے چہروں سے چمکتا ہوں۔ دریا اپنی روانی بدل سکتے ہیں لیکن میں یہ سب نہیں چھوڑ سکتا۔ میری تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف میرے عوام کے پاس ہے اور وہی یہ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور میرے لئے۔ بس ان ہی کا فیصلہ مقدم ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ مطالعہ کے بے حد شوقین تھے انہیں اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ کتابوں سے عشق کی حد تک محبت کرتے تھے فلسفہ اخلاق‘ سیاسی تاریخ اور سیاسی سائنسی علوم ان کے موضوع تھے یوں انہوں نے تاریخ عالم اور معلومات عامہ اور مذہبی تقابل پر بھی بہت سی کتابیں پڑھی تھیں‘سوشلزم و کمیونزم کا بھی عمیق مطالعہ کیا تھا اور پھر عالمی شخصیات کی خود نوشت سوانح عمریوں کے علاوہ بڑی شخصیات کے بارے میں عام تصانیف بھی پوری دلچسپی سے پڑھتے تھے‘ ان کی ذاتی لائبریری بڑی اچھی لائبریریوں میں شمار کی جا تی تھی اس لائبریری میں جامع اور عمدہ کتابیں موجود تھیں اسی لائبریری میں خاص تعداد میں مذہبی کتابیں اور قرآن پاک کے نادر نسخے بھی لائبریری کی زینت تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے افکار‘خارجہ پالیسی اور پھر اس کے نتائج کا مطالعہ کیا جائے تو پھر ان کا یہ مقولہ یاد آتا ہے کہ اگر چھوٹی اقوام کے معاملات کو درست طور پر طے کیا جائے تو وہ طاقت کا سرچشمہ ثابت ہو سکتی ہیں اور ایسی صورت میں بڑی طاقتیں نہ تو انہیں غلام و محکوم بنا سکتی ہیں اور نہ انہیں اپنے احاطہ اثر میں شامل کر سکتی ہیں۔‘‘ اس مقولے کی واضح تصویر ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مہارت اور چابک دستی سے نئے حالات کے تحت چلانا تھا ان کی سیاست کا تمام تر مرکز و محور صرف اور صرف رائے عامہ تھی ان کا یقین تھا کہ آخری نتیجے میں عوام ہی کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوا کرتا ہے1973ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین شملہ معاہدہ طے ہوا جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے برسر اقتدار آنے کے صرف چھ ماہ بعد اس پر دستخط کئے تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی عالمی طور پر مذاکرات کی میز پر کھوئے ہوئے۔ علاقے واپس لینا اور جنگی قیدیوں کی فوری واپسی جیسے اقدامات ان ہی کی اعلیٰ خارجہ پالیسی اور تدبر کا نتیجہ تھا۔ شملہ معاہدہ ایک ایسا چوکھٹا فراہم کرتا ہے۔ جس پر اگر صحیح طور پر عملدرآمد کیا جاتا تو اس سے بھارت اور پاکستان کے مابین یکسر نئے تعلقات کی راہیں استوار ہو سکتی تھیں اور کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا تھا۔22فروری 1974ء کو پنجاب اسمبلی ہال میں عالم اسلام کے سربراہوں کی تاریخیی سہ روزہ کانفرس ہوئی اس کانفرنس کا چیئرمین ، پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقا علی بھٹو کو منتخب کیا گیا‘اس تاریخی اسلامی سربراہ کانفرنس میں 37 اسلامی ممالک کے سربراہ اور اعلیٰ نمائندے شریک ہوئے جن میں شریک سربراہان مملکت اسلامیہ کی تعداد 24 تھی۔ 30جون 1974ء کو حزب اختلاف کے 22 ارکان نے مولانا مفتی محمود کی قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا اس بل پر قومی اسمبلی میں دو ماہ تک مسلسل بحث ہوئی اس پورے عرصے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اہم کردار ادا کیا اور پھر 7ستمبر 1974ء کو یہ بل پاس ہوا اور یوں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ملک کے مذہبی حلقوں میں اس اقدام کو زبردست سراہا گیا اور اس کارنامے پر ذوالفقار علی بھٹو کو سچا عاشق رسولﷺ قرار دیا گیا۔ 18اکتوبر 1974ء کو پاکستان اور فرانس کے مابین ری پراسیسنگ پلانٹ کی خریداری کا سودا طے ہوا جون 1976ء میں امریکی کانگریس نے اس ضمن میں پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا اور حکومت پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا کہا اس دوران امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے پاکستان کا دورہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو ری پراسیسنگ پلانٹ کے منصوبے کو ترک کرنے کی ترغیب دی اور کہا کہ امریکہ اس پروگرام کو ختم کرنے کے عوض پاکستان کو جیٹ لڑاکا طیارے فراہم کرے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اپنا پروگرام جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ 9اگست 1976ء کو لاہور میں ایک عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی۔’’اگر تم ایٹمی پلانٹ کے حصول کے ارادے سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں عبرتناک مثال بنا دیں گے۔‘‘ امریکہ نے فرانس پر بھی دبائو ڈالا کہ پاکستان کو اس منصوبے سے باز رکھا جائے۔ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رکھا بعد میں جس کی سزا انہیں دی گئی۔4اپریل 1979ء کو انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا جبکہ دنیا بھر کے 54 سربراہان مملکت اور عالمی تنظیموں کے علاوہ پاکستان کی اہم شخصیات نے بھی جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کی مگر یکم اپریل 1979ء کو ان تمام اپیلوں کو مسترد کر کے بھٹو کی قسمت کا فیصلہ صادر کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو اب جوڈیشل مرڈر‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی بعض حلقے ان کی خامیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں لیکن تاریخ میں ان کی ذات ہمیشہ زندہ رہے گی بھٹو کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے اور پھر ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ کے نعرے کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھٹو سے منسوب نعرہ غلط ہے ۔ جس گھر کی چھت ٹپکتی تھی بھٹو وہاں موجود ہوتا تھا۔ کاش کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھٹو کے فلسفے کو اپناتی اور اپنی صفوں سے اپنا لیڈر پیدا کرتی نہ کہ خاندانی اجارہ داری کو فروغ دیا جاتا۔