مئی2023ء میں مکمل کی جانے والی مردم شماری کے ابتدائی نتائج ایک بار پھر سندھ اور بالخصوص اہل کراچی کے لئے باعث اطمینان نہیں۔ہمیشہ کی طرح کم گنے جانے کا تنازع اس بار بھی پوری شدت سے سامنے آیا ہے۔کم گنے جانے کے نہ صرف سیاسی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں بلکہ اس کے سماجی ،معاشی اور ترقیاتی نقصانات بھی کچھ کم اہم نہیں ہوتے۔ حکومت وسیاست کے معاملات میں گنتی ( شماریات ) کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے۔حکمرانی کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو آبادی کا حجم اس کی نوعیت ،مالیات کی دستیابی اور اس کی تقسیم درست اعداد و شمار کی موجودگی کے بغیر آسان نہیں۔شماریاتی جائزوں کی موجودگی اب صرف معاشی اور سماجی ترقی کے لئے ہی اہم نہیں بلکہ ان کی سیاسی اہمیت بھی اسی قدر ہے۔جمہوری سیاسی نظام کا تو سارا انحصار ہی گنتی ( اکثریت کے حصول )پر ہوتا ہے۔انتخابات میں کامیابی سے حکومت بنانے تک سارا نظام اسی گنتی پر استوار رہتا ہے۔ریاستی نظام میں، آبادی کا شمار کرنا،اس میں اضافہ کی نوعیت ،صنفی تفریق،گنجانیت ( DENSITY )،علاقائی تقسیم اورانتقال آبادی کے رجحانات کی ترتیب و تدوین کو، اب بنیادی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ یہ سارا عمل مردم شماری CENSUS کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔برطانوی ہندوستان میں اس کا آغاز 1901 سے ہوا، جس کے بعد یہ عمل ہر دس سال کے وقفہ کے بعد کیا جانے لگا ۔ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951 میں ، دوسری 1961 میں، تیسری 1972 میں ( ایک سال کی تاخیر کی وجہ سیاسی شورش رہی جس کے نتیجہ میںمشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی ) ،چوتھی 1981 میں ہوئی تاہم اس کے بعد یہ عمل طے شدہ تسلسل قائم نہ رکھ سکا اورتاخیر کا شکار ہوتا رہا پانچویں مردم شماری1998 میں اور چھٹی 2017 میں ہو سکی ۔ چھٹی مردم شماری کے اعداد و شمار پر تحفظات اور عدم اطمنان کے باعث 2023میں یہ عمل دوبارہ شروع کیا گیا جس کے ابتدائی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست ہے ۔ پارلیمانی سیاسی نظام میں پارلیمنٹ میںوفاقی اکائیوں کی نمائندگی مردم شماری سے حاصل شدہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ابتدا سے ہی پاکستان کی سیاست میں آبادی کی شماریاتی اہمیت اور حیثیت کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ (RELUCTANCY ) موجود رہی ہے۔ اپنے قیام کے وقت پاکستان مشرقی ( مشرقی بنگال ) اور مغربی ( جس میں مغربی پنجاب ،سندھ،موجودہ خیبر پختون خوا،بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات شامل تھے۔) دو حصوں پر مشتمل تھا۔ 1951 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑھے سات کروڑ تھی جس میں سے مشرقی حصہ کی آبادی تقریبا سوا چار کروڑ اور مغربی حصہ کی آبادی تقریبا سوا تین کروڑ تھی۔آبادی کے اس تناسب سے پارلیمنٹ میں مشرقی حصہ کی نمائندگی زیادہ ہونی تھی جو ایک سیدھا سادا جمہوری اور اصولی طریقہ ہے۔مگر اس وقت کی حکمران قوتوں کو ، جن کا زیادہ تر تعلق اور اثر و رسوخ مغربی حصہ سے تھا ، یہ منظور نہیں تھا ۔پاکستان کے پہلے دستور کی تیاری میں جو نو سال کی تاخیر ہوئی اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ کس طرح مشرقی حصہ کی اکثریت کی نمائندگی کو غیر موئثر کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر ہمیشہ کیلئے پاکستان کی حکمرانی پر مشرقی حصہ کی بالادستی قائم رہے گی جو اس وقت کی حکمران اشرافیہ کو کسی صورت منظور نہیں تھا ۔ چنانچہ مشرقی حصہ کی اکثریت کو قابو کرنے کے لئے پاکستان کے وفاق کو دو صوبوں مشرقی پاکستان اور مغربی حصے میں شامل تمام اکائیوں کو مدغم کرتے ہوئے ایک صوبہ یعنی مغربی پاکستان تشکیل دیا گیا اور پھر قومی اسمبلی میں دونوں صوبوں کی یکساں نمائندگی کا ایک غیر جمہوری اصول پیرٹی (PARITY) متعارف کرایا گیا۔پاکستان کی سیاست میں شماریاتی انحراف کی اس صورتحال کی انتہا بالآخر 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوئی ۔ 1971کے بعد وفاق پاکستان کی ہیئت میں جو تبدیلی ہوئی اس سے ایک بار پھر وفاقی اکائیوں میں آبادی کی غیر متوازن شکل سامنے آئی۔ آبادی کے اعتبار سے غیر متوازن وفاقی اکائیوں کی موجودگی کے باعث پاکستان میں مردم شماری کے نتائج ہمیشہ باعث نزع رہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ وفاق کی سیاست میں پنجاب کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے اس کی آبادی کا موجودہ تناسب معمولی کمی بیشی کے ساتھ اسی طرح رہے گا۔ ریاستی اداروں پر اعتماد کے فقدان کے تسلسل نے ان شبہات کو مزید تقویت دی ہے ۔ پھر یہی نہیں کہ آبادی کی گنتی پر چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کو عدم اطمنان رہا ہے بلکہ صوبہ کی سطح پر بھی سندھ کی شہری آبادی خصوصا کراچی کو اپنے کم گنے جانے کی شدید شکایات موجود رہی ہیں۔سیاسی توازن تبدیل ہو جانے کے خوف سے کب تک شہری سندھ کو اس کے جائز سیاسی حقوق سے محروم رکھا جاسکے گا ؟ آبادی کے تناظر میں جس کی جتنی نمائندگی کا استحقاق بنتا ہے وہ اسے ضرور حاصل ہو۔ آبادی کی بنیاد پر نمائندگی کم رکھے جانے کے غیر جمہوری طریقہ کار کے نتائج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت پاکستان کا وفاق پہلی ہی اٹھا چکا ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے سیاسی سانحے کے بعد فٖیصلہ سازوں کا طرز عمل اب بھی وہی ہے۔جمہوری سیاست کے اصولوں سے انحراف کی بنیاد پر نہ تو سیاسی نظام کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی ریاست کی وفاقی ہیئت کا استقلال ممکن ہے۔وفاق کی کامیابی جمہوری اصولوں کی پاسداری میں ہے اور جمہورت کا سارا نظام ہی درست گنتی پر انحصار کرتا ہے ۔ وفاق ہو یا صوبہ ہر دو حکومتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ گنتی کی اس ہیر پھیر سے نہ صرف ترقی کا عمل سست اور ناکافی رہتا ہے بلکہ سیاست میں محرومیوں کی بڑھتی ہوئی خلیج کووقت گزرنے کے بعد پاٹنا بھی ممکن نہیں رہتا لہذا ضروری ہے کہ کراچی سمیت شہری سندھ کی آبادی کو درست گنا جائے اور آبادی کے مطابق وفاق اور صوبہ میں اس کی سیاسی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ وقتی سیاسی مصلحتوں کو ترک کرتے ہوئے دور اندیشی پر مبنی دانائی کا اختیار کیا جانا ہی ریاست کے مفاد میں ہے۔ کاش وہ بھی سمجھ جائیں جنہیں سمجھانا مقصود ہے!!