مخدوم آشر سے میرا تعارف چوہدری افضل آف اوکاڑہ نے کرایا تھا۔ افضل سیلانی آدمی ہے۔ کبھی سندھ‘ کبھی خیبرپختونخوا‘ اکثر کوئی نیا شخص اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے لیکن ویگن ڈرائیوروں سے لے کر وفاقی سیکرٹری‘ سینئر اینکر پرسن‘ سیاستدان‘ سب اس کا انتظار کرتے ہیں۔ کوئی تیرہ برس قبل افضل کے ساتھ آشر سے ملاقات ہوئی۔ گوجرانوالہ کا کاروباری آشر میڈیا میں دلچسپی رکھتا تھا۔ پھر آشر کا معمول ہوگیا ہر صبح خیریت کا واٹس ایپ پیغام بھیجنا۔ کچھ روز سے یہ پیغام نہیں مل رہے تھے۔ سوچا فون کرتا ہوں لیکن مصروفیات نے بھلا دیا۔ ایک ہفتے بعد آشر کا فون آ گیا۔ کہنے لگا مجھے ضروری بات کرنا ہے۔ میں دفتر میں مصروف تھا۔ کہا کہ رات کو گھر پہنچ کر فون کرتا ہوں۔ گھر جا کر یاد نہ رہا۔ اگلے دن اس کا فون آ گیا۔ میں شرمسار تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگئی ہے۔ اسے اغوا کرلیا گیا تھا۔ اغواء کی پوری کہانی یہ ہے کہ آشر کو کچھ عرصہ پہلے سرگودھا کے کسی علاقے سے ایک شخص ملا۔ دونوں میں بہت جلد دوستی ہو گئی۔ ایک روز وہ شخص آشر سے کہنے لگا کہ میری ایرانی حکام سے بڑی دوستی ہے۔ زیارتوں کے لیے چلتے ہیں۔ وی آئی پی استقبال ہوگا۔ آشر پہلے بھی ایران جا چکا ہے‘ وہ یورپ اور کئی عرب ممالک کی سیر بھی کر چکا ہے۔ ایران میں اس کی اپنی تھوڑی بہت جان پہچان ہے۔ اس نے کہہ دیا کہ ضرورت نہیں۔ وہ شخص اصرار کرتا رہا۔ آخر ایک روز آشر آمادہ ہو گیا۔ اغوا کا منصوبہ بنانے والے نے آشر کی گاڑی اپنے کرائے کے گھر میں کھڑی کی اور اپنی گاڑی میں اسے لے کر روانہ ہوگیا۔ آگے کی کہانی آشر کی زبانی! ’’ہم بلوچستان کے کراسنگ پوائنٹ پر پہنچے تو میرے ساتھی نے کہا کہ ہم یک دوسرے مقام سے بارڈر پار کریں گے جہاں اس کے دوست تھے۔ کئی گھنٹے ڈرائیو کے بعد رات ہو گئی۔ ایک جگہ چند لوگ بیٹھے تھے۔ اغوا کار نے مجھے وہاں سے اتارا اور گاڑی پارک کر کے آنے کا کہہ کر غائب ہو گیا۔ میں کافی دیر بیٹھا رہا۔ دوسرے لوگ افغانی معلوم ہوتے تھے۔ ان میں سے کوئی میری زبان پنجابی‘ اردو یا انگریزی سمجھ میں نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنے ساتھی کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی تو ایک شخص ڈنڈا لے کر آ گیا اور مجھے اشارے سے وہیں بیٹھا رہنے کو کہا۔ میں نے جب جانے کی ضد کی تو اس نے ڈنڈے مارنے شروع کردیئے۔ کچھ دیر بعد مجھے اور باقی لوگوں کو اشارے سے چلنے کو کہا گیا۔ سامنے ایک پہاڑ نظر آ رہا تھا۔ کہا گیا اس کے دوسری طرف ایران ہے۔ ہم ساری رات چلتے رہے۔ اگلے دن دوسری طرف پہنچے تو کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں شوگر کا مریض ہوں۔ پوری رات کچھ کھایا نہ پیا۔ میرے لیے ایک قدم اٹھانا دشوار ہو چکا تھا۔ ستم گروں نے مزید یہ ستم کیاکہ کار کی ڈگی میں مجھ سمیت چار افراد کو ڈال دیا۔ ہم دوہرے ہوئے پڑے تھے۔ ایک شخص کا پائوں میرے گلے پر تھا۔ ایک اذیت تھی جو بیان نہیں ہو سکتی۔ کئی بار دعا کی کہ اللہ کریم مجھے اس اذیت سے نجات دے دے‘ موت دے دے۔ معلوم نہیں کیسے کوئی سات گھنٹے اسی طرح گزرے۔ پھر ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں برف پڑی تھی۔ میں نقاہت سے نڈھال تھا۔ کھلے میدان میں بٹھا دیا گیا۔ قریب سے ایک بچی گزر رہی تھی۔ اس نے میرے منہ میں ایک بسکٹ ڈال دیا۔ نہ پوچھئے اس وقت اس بسکٹ نے جسم وجان کو کیا طاقت دی۔ روں روں اللہ کاشکر ادا کر رہا تھا۔ ایک یقین سا ہو گیا کہ اللہ اب مرنے نہیں دے گا۔ میں نے دیکھا کہ گاڑی والے کہیں جا چکے تھے‘ باقی لوگوں کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔ میں نے ایک بھلے آدمی کو روکا۔ وہ فارسی بول رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ میں ایران کی حدود میں ہوں۔ اس نے مجھے کسی طرح سے سمجھایا کہ میں حرم خمینی چلا جائوں۔ وہاں کوئی انگریزی جاننے والا مل سکتا ہے۔ حرم خمینی میں گیا تو وہاں بھی کوئی میری بات سمجھنے والا نہ ملا۔ اتفاق یہ رہا کہ میرا موبائل فون اور ہینڈ فری میرے پاس تھے۔ میں نے ایک موٹرسائیکل سوار سے درخواست کی کہ مجھے تہران میں پاکستانی سفارت خانے تک پہنچا دے۔ اس نے کچھ رقم کا تقاضا کیا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ اپنا موبائل اس کے حوالے کردیا۔ اس کی نظر ہینڈ فری پر تھی‘ میں نے وہ بھی اتار دی۔ چند گھنٹوں کے بعد میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے تھا۔ بارش ہورہی تھی اور سفارت خانے کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ میں دروازے کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد قریب سے گزرتے ایک شخص نے مجھے متوجہ کیا۔ وہ سفارت خانے کے ہمسائے میں رہتا تھا۔ اپنے گھر لے گیا۔ غسل کرایا۔ خشک لباس دیا۔ کھانا کھلایا اور میرا حال پوچھا۔ وہ تھوڑی بہت انگریزی جانتا تھا۔ اس نے سفارت خانے میں اپنے کسی جاننے والے کو آگاہ کیا۔ میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث یہ امر تھا کہ سفارتی عملے میں میرا اسلام آباد سے واقف ایک شخص مل گیا۔ گھر والوں کو فون کیا اورانہوں نے میری واپسی کا انتظام کیا۔‘‘ آشر بتا رہا تھا کہ وہ اتنی بھوک‘ اذیت اور صدمہ برداشت کر چکا ہے کہ مسلسل دوروز سے گھر پر کھائے جا رہا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کر رہا ہے۔ اس کی گاڑی اغوا کاروں کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرا چکا ہے۔ کچھ درد دل رکھنے والے حکام اس کی مدد کر رہے ہیں لیکن پولیس‘ ایف آئی اے اور دوسرے اداروں سے اسے شکایات بھی ہیں۔ آشر ذہنی صدمے سے دوچار ہے۔ ایک سادہ اور بے ضرر آدمی کسی دھوکے باز کے معمولی سے لالچ کے باعث مرتے مرتے بچا۔ آشر بتا رہا تھا کہ اس نے اغوا کاروں سے پوچھا کہ اس سے کیا بدلہ لیا ہے؟ آشر کا اغوا کیوں وہاں۔ اغوا کار کب سے یہ کام کر رہے ہیں اوران کو کس کی سرپرستی حاصل ہے اس کا پتہ چلانا ضروری ہے‘ کہانی میں کئی قانونی سقم ہیں لیکن ان کاسراغ لگانا تفتیشی اداروں کا کام ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اس نوع کے افراد کے دھوکے سے بچنا چاہئے۔