جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا غور کر نے پر پتہ چلتا ہے یہ گانا شاید ہماری عوام کے لیے لکھا گیا تھا۔ وطن ان دنوں جس معاشی، سیاسی اور اخلاقی المیوں سے گزر رہا ہے مداری لوگ اس سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کے اپنے اپنے گروہ ہیں اور ہمیشہ اقتدار کے حصول کے لیے باریاں مقرر کرتے ہوئے یہ سب گروہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ جیسے اب چودہ پارٹیوں کی پی ڈی ایم ہے۔ آپس کے لین دین اور بدعنوانیوں پر یہ کبھی مداخلت نہیں کرتے۔ ان کا گٹھ جوڑ مل کر ان مختلف گروہوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے سماجی میل جول اور شادیاں بھی سیاسی ہوتی ہیں۔ اب اسحاق ڈار اور نواز شریف ہی کی مثال لے لیجیے۔ آج نیا دور ہے۔ ٹیکنالوجی کی بدولت ان پڑھ لوگ بھی اپنے حقوق کی بات کرنے لگے ہیں۔ لیکن جب بھی یہ اپنی زندگی اور مزدوری مانگنے لگتے ہیں تو بقول فیض صاحب انہیں آپس میں لڑا دیا جاتا ہے۔ یہ بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو آج کل یہی ہو رہا ہے۔ ناقص مفت آٹا لینے کے لیے جو مناظر مختلف ٹی۔ وی چینلز پر دکھائے جاتے ہیں دنیا بھر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ن لیگ اب صرف ایک شریف خاندان تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمیشہ یہ موٹر وے اور پْل بنانے کو ترقی کا نام دیتے رہے جبکہ یہ ضرورت کی چیزیں تھیں۔ اب یہ عوام کی عزت نفس سے کھیل کر مفت آٹا دینے کے لبادے میں ذلت، رسوائی اور تحقیر مْفتو مفت بیچ رہے ہیں۔ پہلے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا جو آج تک ملنا تو دور کی بات تن سے کپڑا بھی اْتر چکا۔ جب بھی میری کام والی ماسیاں لائنوں میں لگ کر بمشکل آٹا لینے کے قصے بتاتی ہیں تو دل کٹ کٹ جاتا ہے۔ بیچارہ غریب یہ بھی سمجھ نہیں سکتا کہ بھوک پیدا کرنے والے ہی روٹیوں کے ٹکڑے بیچ رہے ہیں۔ جاگو لوگو جاگو! لاہور گواہی دے رہا ہے کہ اب لاہور خان کا ہے۔ پی۔ ڈی۔ ایم کو سوچنا چاہیئے کہ اگر کراچی والے سڑکوں پر نکل آئے تو کیا حالات ان کے قابو میں رہیں گے۔ اب ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ میں عدالتی اصلاحات کا بل پیش کیا گیا جو 1997 کی یاد دلاتا ہے۔ وہی کردار، وہی مطالبے، وہی اپنے ذاتی فائدے یعنی از خود نوٹس اکیلا چیف جسٹس نہیں بلکہ 3 سینئر ترین ججز اس امر کا فیصلہ کریں گے۔ عدالتی اصلاحات کے نئے بل کے مطابق از خود نوٹس پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق ہو گا اور پھر 14 روز کے اندر اندر درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو گی۔ اس دوران کچھ بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ ایک لاڈلی خاتون تو اپنے جلسوں میں انصافی جج اور انصافی جرنیلوں کی ترو تازہ اصطلاح بھی بڑی نفرت سے کر رہی ہیں۔ بیشتر قانونی ماہرین کی رائے میں آئین کے آرٹیکل 191کے تحت اعلیٰ عدالتیں اپنے دستو رالعمل خود بناتی ہیں اور پارلیمان کا اس میں تبدیلی لانا اصلاحات نہیں بلکہ ذاتی مفادات یا مداخلت کہلائے گا۔ یہ تو سپریم کورٹ پر حرف آنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف ہماری عدالتوں کا نظام نہایت سْست اور مہنگا ہے۔ اشرافیہ کا قانون سے بالا تر ہونا اور عوام کے لیے کرپشن کا بازار گرم ہونا مسلسل تکلیف دہ ہے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی دفن ہو گیا۔ قرض اتارو ملک سنوارو کے اربوں روپے بھی ان کی ذاتی جیبوں میں چلے گئے۔ آج دن تک غریب عوام کے وہ بنیادی حقوق جو ریاست فراہم کرتی ہے اْس کے لیے کبھی کوئی عدالتی اصلاحات پیش نہیں ہوئیں۔ جب بھی کبھی ترمیمات ہوئیں تو وہ ذاتی مفادات کا ایجنڈا تھیں۔ الیکشن التوا کیس کا چار رکنی بنچ بھی آج ٹوٹ گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے الگ ہوتے ہوئے اپنی اختلافی نوٹ میں لکھا کہ حکم نامہ لکھتے وقت ان سے مشاورت بھی نہیں کی گئی اور کھلی عدالت میں فیصلہ پیش نہیں ہوا۔ پی۔ ڈی۔ ایم خود کو ملک کی میجورٹی سمجھتی ہے تو پھر سوال اٹھتا ہے آخر الیکشن سے بھاگنے کی کیا وجہ ہے۔ سو باتوں کی ایک بات الیکشن کروائیں فیصلہ عوام کریں گے۔ اب عوام میں شعور پیدا ہو چکا ہے۔ لیکن وزیر اعظم شہباز شریف بادشاہت کا کوٹ پہنے آٹا لے لو آٹا لے لو کی صدائیں لگا رہے ہیں جس میں موت اور ذلت اکھٹی بٹ رہی ہے۔ اللہ اس مملکتِ خدا داد کی خیر کرے۔ اگر اصلاحات ہی لانی ہیں تو عام آدمی کے لیے لائی جائیں تا کہ وہ جی سکے۔ ہمارے سیاست باز جو کرسی کے لیے مرے جاتے ہیں مگر یہ حقیقت بھلائے بیٹھے ہیں کہ یہ سب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں یہ departure lounge میں بیٹھے ہیں نجانے کب ان کی ریل گاڑی آجائے۔ لیکن دنیا کی مادی محبت میں یہ گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اداروں کی عزت ان کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اداروں کی آپس کی لڑائیاں تقسیم کا باعث ہوں گی۔ بابائے قوم قائدِ اعظم کے اقوال تو ہم بھلا ہی بیٹے ہیں۔ اتحاد، ایمان، تنظیم۔ اتحاد تو اتفاق فاؤنڈری میں بدل چکا۔ ایمان نے جھوٹ کا لبادہ اوڑھ لیا اور تنظیم فقط تنظیم سازی تک محدود ہو گئی۔ ان دنوں ملک انتشار کی بلندیوں پر ہے۔ سیاسی بحران کو مزید افراتفری اور نفسا نفسی سے روکنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کرنا ہوں گے۔ پارلیمنٹ اور عدالتوں کو اپنی آئینی حدود سے ہر گز تجاوز نہیں کرنا چاہیئے۔ عوام اب سیاست بازوں کو محض اپنے مفادات کے لیے ملک کی بچی کچھی جڑوں کو کھوکھلا نہیں کرنے دیں گے۔ پہلے تو سب فرداً فرداً کہا کرتے تھے توڑیں اسمبلی ختم بات ہم الیکشن کرواد دیں گے۔ لہذا سو باتوں کی ایک بات الیکشن فی الفور کروائیں۔ ٭٭٭٭٭