ایران اور شام کے درمیان طویل المیعاد اسٹریٹجک معاہدے پر حالیہ دستخط نے امریکہ اور اسرائیل میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور شام کے صدر بشار الاسد نے اس معاہدے پر دستخط کیے، جسے ایران نے دونوں ممالک کے مضبوط تعلقات اور علاقائی استحکام کے عزم کی علامت قرار دیا ۔ تاہم کچھ لوگ اس معاہدے کو خطے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے ممکنہ خطرے کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں یہ معاہدہ، جس میں تجارت، تیل، توانائی، نقل و حمل، مواصلات، رہائش اور زیارت جیسے مختلف شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے، رئیسی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے دمشق کے پہلے دورے کے دوران دستخط کیے گئے۔ دونوں رہنماؤں نے اس معاہدے کو اپنے دو طرفہ تعلقات میں سنگ میل کے طور پر سراہا، جو کئی دہائیوں کے سیاسی، فوجی اور اقتصادی تعاون سے قائم ہیں۔ انہوں نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ''محور مزاحمت'' کے لیے اپنی وابستگی کا بھی اعادہ کیا، اور فلسطینی کاز اور لبنانی حزب اللہ تحریک کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ ایران اور شام دونوں کو خطے اور اس سے باہر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایران اب بھی سخت امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔ اس معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ہیں۔ شام کے ساتھ معاہدے پر دستخط کو کچھ لوگ ایران کے لیے خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے اور ممکنہ طور پر امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔شام اب بھی اپنے جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو اور زیر قبضہ علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل اور برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کو اسرائیل کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کا بھی سامنا ہے جس نے اپنے فوجی اور سویلین اہداف کے خلاف بار بار فضائی حملے کیے۔یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں بدلتی ہوئی حرکیات کی بھی عکاسی کرتا ہے، جہاں افغانستان سے امریکی انخلاء اور بعض عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے درمیان نئے اتحاد اور دشمنیاں ابھر رہی ہیں۔ ایران اور شام اپنی شراکت داری کو مضبوط بنانے اور اپنے مخالفین کے ساتھ مستقبل کے کسی بھی مذاکرات میں اپنا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ترکیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ از سر نو تعلقات کے آغاز پر شام اور عراق میں اپنی موجودگی اور مفادات کو بڑھا رہے ہیں۔ تاہم یہ معاہدہ چیلنجوں اور حدود کے بغیر نہیں ہے۔ امریکی پابندیوں، شام میں سلامتی کی صورتحال اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے بعض منصوبوں پر عمل درآمد میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ معاہدہ اسرائیل کی طرف سے مزید دشمنی کو بھڑکا ئے گا، جو ایران کو اپنا اہم دشمن اور شام کو اپنا اسٹریٹجک ہدف سمجھتا ہے۔ مزید برآں، یہ معاہدہ ان بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دے سکتا جنہوں نے ماضی میں ایران اور شام کے درمیان جیسے کہ روس کے کردار، شام کے سیاسی نظام کے مستقبل اور بعض شامی اپوزیشن کی قسمت کے بارے میں ان کے مختلف خیالات و تعلقات کو کشیدہ کیا ، اس کے باوجود، یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران اور شام اپنے تزویراتی اتحاد کو برقرار رکھنے اور ہنگامہ خیز خطے میں اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں یا اسرائیلی حملوں سے الگ تھلگ یا کمزور نہیں ہوئے ، بلکہ تعاون اور مزاحمت کے نئے طریقے تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل نے بھی ایران کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی کے پیش نظر اس معاہدے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل نے ایران پر حماس اور حزب اللہ جیسے عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا اور شام میں ایرانی اہداف پر متعدد حملے کیے ۔ شام کے ساتھ معاہدے پر دستخط کو کچھ لوگ اسرائیل کی سلامتی کے لئے ایک ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، کیونکہ ملک کی ایران کے ساتھ قربت اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ افواج و مسلح گروہوں کی موجودگی ہے۔ان خدشات کے باوجود، یہ قابل ذکر ہے کہ معاہدے پر دستخط ضروری طور پر ایک نئی پیش رفت نہیں ہے. ایران کئی سالوں سے شام کا قریبی اتحادی رہا ہے اور ماضی میں دونوں ممالک نے متعدد امور پر تعاون کیا ہے۔ معاہدے پر دستخط محض اس تعلقات کو باضابطہ بنانے کا ایک طریقہ ہے، اور ضروری نہیں کہ یہ ایران کی علاقائی حکمت عملی میں ایک اہم تبدیلی کی نمائندگی کرے۔ شام میں تنازع ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اور اس کے علاقائی استحکام پر اہم اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مزید برآں یہ معاہدہ سعودی عرب کو ایران و شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں پراکسی تنازعات میں ملوث رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ممکنہ طور پر معاشی مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ اس معاہدے پر دستخط سے پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ شام کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافہ اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم سعودی عرب اور پاکستان کو اس نئے علاقائی منظر نامے میں احتیاط سے چلنا ہو گا۔ انہیں خطے میں اپنے مفادات اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ اور ایک زیادہ عملی اور لچک دار طریقہ اختیار کرنا ہو گا جو بدلتی ہوئی حرکیات کو ایڈجسٹ کر سکے۔ انہیں اپنی شراکت داری اور اتحاد کو متنوع بنانااور کسی ایک ملک پر زیادہ انحصار کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔