اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو نااہل قرار دیا تو نتائج اور پارلیمنٹ کے ردعمل سے سب کو ڈرنا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ جب افتخار چوہدری نے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا تھا تو اُس وقت پارلیمنٹ نے رد عمل کیوں نہ دیا؟ اس وقت تو راجہ صاحب خود دوڑے دوڑے وزیر اعظم بن بیٹھے ، کسی طرح کے رد عمل کا اظہار نہ کیا حالانکہ سید یوسف رضا گیلانی کا استدلال بجا اور درست تھا کہ آئین میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، اس بناء پر سوئس بینک کو لکھا جانے والا خط غیر آئینی ہوگا ، اس کے باوجود سید یوسف رضا گیلانی کو محض تیس سیکنڈ کی سزا دے کر گھر بھیج دیا گیا، اب جہاں تک آئین کی بات ہے تو آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے روز کے اندر الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ راجہ پرویز اشرف کا نجی ٹی وی کے پروگرام میں مزید یہ کہنا کہ وزیراعظم کی نااہلی ملک کو ایسی غیر متوقع صورت حال کی جانب دھکیل دے گی جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے تو راجہ صاحب کو صاف بتا بھی دینا چاہئے کہ کیا ہو سکتا ہے ؟ حکومت تو پی ڈی ایم سے بھی نہیں سنبھالی جا رہی ، سری لنکا کی مثال دی جاتی تھی ، آج حقیقی معنوں میں صورتحال اس سے بد تر ہو گئی ہے۔ میزبان کے اس سوال پر کہ کیا مارشل لا لگایا جا سکتا ہے؟ اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ملک کو انتشار کی جانب دھکیلا جائے گاتو مارشل لا بھی اسے قابو نہیں کر سکے گا، ہمیں اس طرف جانے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ آگے بہت گہری کھائی ہے، لیکن راجہ صاحب کو بھی معلوم ہے کہ قوم پر جب بھی کوئی ’’مصیبت ‘‘آتی ہے تو وہ اجازت لے کر نہیں آتی۔ راجہ پرویز اشرف نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قومی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اپنی کارروائی کا ریکارڈ سپریم کورٹ کو فراہم کریں تو پھر پارلیمنٹ کی بالادستی کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز شریف کے دور میں پارلیمنٹ کا ریکارڈ مانگا تھا تو اس وقت سپیکر سومرو صاحب نے ریکارڈ کیوںفراہم کر دیا ؟ معاملہ اس بناء پر بگڑا تھا کہ جسٹس سجاد علی شاہ اس سے آگے چلے گئے اور یہ بھی مطالبہ کر دیا کہ قومی اسمبلی کی حذف شدہ کارروائی کا ریکارڈ بھی فراہم کیا جائے، جہاں تک پارلیمنٹ کی سپر میسی کا تعلق ہے تو اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے مگر پارلیمنٹ کی سپر میسی جو کہ ماضی میں مجروح ہوئی اسے کیا کہا جائے؟ ۔ دو ریاستی اداروں یعنی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے درمیان محاذ آرائی افسوس ناک ہے ،ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اراکین قومی اسمبلی کے یہ خدشات کہ عدلیہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے عمل میں براہ راست مداخلت کر رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ ہو یا سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہمیشہ ان کا نشانہ اور شکار بنتی رہی ہے ،یہ خدشات دور ہونے چاہئیں ۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ جب بھی پاکستان میں مارشل لا نافذ ہوا تو اعلیٰ عدلیہ کے ججز ہی مارشل لا کی پشت پناہی اور پارلیمنٹ کو دبانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملاتے نظر آئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے آئین کو توڑنے اور پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرنے والوں کی وجہ سے ہی آج پاکستان کمزور ہے۔ رات کو بارہ بجے بھی عدالتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اس وقت پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کے لوگ عدلیہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اب وہی لوگ عدلیہ کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، دوہرے معیار نہیں ہونے چاہئیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں ججوں کی بھاری تنخواہ اور بھاری مراعات کے بارے میں لمبی چوڑی تقریر کی ، حالانکہ ججز کی بھاری تنخواہیں (ن) لیگ نے ہی مقرر کیں ۔تمام سرکاری ملازمین تنخواہ میں اضافے کے برابر حقدار ہوتے ہیں جس گریڈ میں جج کام کرتا ہے اس گریڈ کے دوسرے عدالتی ملازم کی تنخواہ میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انصاف کے ادارے میں بھی انصاف نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے جو بات کرنی تھی اور نہیں کی وہ یہ ہے کہ ججز کی تعیناتیاں بھی ریاست کے دیگر ملازمین کی طرح پبلک سروس کمیشن کی معرفت ہونی چاہئیں تاکہ پسماندہ اور محروم علاقوں کی شکایات کا ازالہ ہو سکے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پنجاب میں سی ایس ایس کا زون سیکنڈ ختم کر دیا اور کہا کہ یہ میرٹ کی خلاف ورزی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں رورل اور اربن کے کوٹے برقرار رکھے گئے تو سوال یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں دوہرے معیار کیوں ہیں؟ آئین جب ایک ہے تو اس کا نفاذ بھی ایک طرح کا ہونا چاہئے۔یہ ریاست کے اپنے ہی مقرر کردہ اصول کی خلاف ورزی ہے جس پر نہ وفاقی پبلک سروس کمیشن توجہ دے رہا ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ ۔ تعلیم کا ذکر چلا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان خصوصاً صوبہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں پاکستانی زبان و ادب سے مسلسل سوتیلی ماں کا سلوک ہوتا آ رہا ہے، ہندی زبان کے وہ شاعر اور ادیب جو انڈیا میں مدفون ہیں پاکستان اور تحریک پاکستان سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں یونیورسٹیاں ان پر ریسرچ کراتی ہیں جبکہ پنجابی ، سرائیکی ، سندھی ، بلوچی، پشتو و دیگر زبانوں کے مشاہیر کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پاکستانی زبانوں میں تعلیم کے دروازے بھی بند ہیں ، خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان سالہا سال سے اعلان کرتی آ رہی ہے مگر سرائیکی شعبہ ابھی تک قائم نہیں کیا گیا، وائس چانسلر جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور ان کیخلاف ایک طالب علم کو حبس بے جا میں رکھنے پر ایڈیشنل سیشن جج رحیم یار خان امجد علی باجوہ نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ وائس چانسلر نے یونیورسٹی کی تعلیم جاری رکھنے کی بجائے یونیورسٹی میں چھٹیاں کر دی ہیں اور امتحانات منسوخ کر دئیے ہیں ، گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن کو ان مسائل کے حل کے لئے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔