دن مشقت میں اگر تم نے گزارا ہوتا رات کا چین تمہیں ہم سے بھی پیارا ہوتا تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا یہ فقط باتیں ہی ہیں کہ تو نے اک بار ہمیں دل سے پکارا ہوتا ‘ وزیر اعظم نے آج کمال بات کی یہ جسے سمجھنے کے لئے کم از کم بقراط اور سقراط کی ضرورت ہے یہ وہی بات ہے جو ایک ڈرائی فوڈ بیچنے والے نے گاہک سے کہی تھی اخروٹ کھانے سے دماغ اور سمجھ بوجھ بڑھتی ہے ساتھ ہی اس نے گاہک کو اخروٹ کی گری کھانے کو دی وہ کھا چکا تو خان صاحب نے پوچھا ہاں جی اب بتائو درجن میں کتنے انڈے ہوتے ہیں گاہک نے کہا بارہ خان نے کہا دیکھا گری نے کیسا کام کیا بلکہ میں کہوں گا کہ سر پر بادام روغن ملنے کی ضرورت ہے کہ اس میں اور ترو تازگی آئے۔ وزیر اعظم جناب حضرت شہباز شریف فرماتے ہیں عمران کی سیاست کا مقصد اقتدار ہے، چاہے ملک کو جو بھی نقصان پہنچے۔ میرے پیش نظر ان کے بیان کا پہلا حصہ ہے پوچھنا یہ ہے کہ کیا سیاست میں اقتدار کے علاوہ بھی کوئی مقصد ہو سکتا ہے یاہے آپ کے اتحادی اور سربراہ پی ڈی ایم تو پہلے ہی ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ سب اقتدار میں آنے کے لئے ہی سیاست کرتے ہیں۔ میں کہوں گا کہ اقتدار ہی کیا بلکہ اکثریت تو پیسے بنانے کے لئے آتی ہے۔ پہلے الیکشن پر پیسے لگاتے ہیں پھر آ کر ترقیاتی فنڈز کے نام پر کماتے ہیں اور یہ اس قدر حریص ہیں کہ بلدیاتی الیکشن تک نہیں ہونے دیتے کہ کچھ حصہ نیچے نہ پہنچ جائے۔خیر اب تو معاملہ لوٹ مار تک پہنچا ہوا ہے اور کمال ان کا یہ ہے کہ جس راستے سے گزرتے ہیں ان کے نقش قدم تک نہیں ملتے۔ یہ فرداً فرداً بھی کھاتے ہیں اور مل جل کر بھی ۔صرف دیانتدار وہی ہے جس کو موقع نہیں ملا ہمیں تو اپنے یار کا دکھ ہے جو ایکسپوز ہوا۔کسی کے پاس عربوں کے اور کسی کے پاس اربوں کے اثاثے ہیں اس پر وہ یہ شعر بھی پڑھتے ہیں: تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے میں تو نواز شریف کے منہ سے ایک شعر سن سن کر پاگل سا ہو گیا اور سوچا کہ یہ شعر اپنا مفہوم کھو چکا ہائے مقام لاہوت اور وہاں کا طائر پھڑ پھڑا گیا ہو گا: اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی اب آتے ہیں اپنے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی طرف۔ اب پرویز بھی پرواز میں ہیں۔میں غلط نہیں کہہ رہا اب کے وہ ڈکٹیشن لے نہیں دے رہے ہیں کہ انہیں سگنل مل گیا ہے یا ان کی سمت نمائی ہو چکی کیا دلچسپ بات انہوں نے کی کہ باجوہ نے ڈبل گیم کی نہ عمران خاں نے۔پھر اس سے بھی آگے کا بیان جو بنیادی ہے کہ چار ماہ تک کچھ نہیں ہو رہا۔مگر میں علی محمد صاحب کے بیان سے زیادہ لطف اندوز ہو کہ پرویز الٰہی اسمبلیاں توڑنے میں تاخیر نہیں کریں گے ، ہے جو تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی ہے۔لیکن خان صاحب کو میں داد دوں گا وہ اڑتی چڑیا کے پر بھی گن لیتے ہیں اور دوستوں کو زیادہ آزماتے نہیں۔ ویسے یہ اچھا وصف ہے کہ دیکھتے رہو اور اچھے وقت کا انتظار کرو خان صاحب کی مسکراہٹ بھی بے معنی نہیں ہوتی۔ کیا بتائوں کہ زخم کس نے دیا مسکراتا رہا میں گھائو کے ساتھ ویسے سچی بات یہ ہے کہ ایک سوال کے جواب میں مجھے بھی سوچنا پڑا کہ خان صاحب میدان میں ہیں اور ایک لمحے کے لئے بھی یہ تاثر نہیں ملا کہ وہ بھاگ جائیں گے۔یہ الگ بات کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں انٹرنیشنل سطح پر تحفظ حاصل ہے اور وہ سب کو آنکھیں دکھاتے ہیں پھر ایک سوال کہ یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ سکیورٹی رسک ہیں عوام میں نکلیں گے تو پتہ چلے گا وہ تو عوام میں نکلنے کی بجائے عوام کو لے کر نکل پڑے ہیں۔ ہمیں۔دوسری طرف یہ سوال بھی اتنا ہی اہم ہے کہ تمام ہری جھنڈیاں دکھانے کے باوجود نواز شریف واپس نہیں آ رہے۔ہم وہ بدقسمت ہیں کہ ہمارے رہنما اور اداروں کے سربراہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کو اپنا وطن ہی نہیں سمجھتے جس دن یہ بات قوم کی سمجھ میں آ گئی شاید انقلاب آ جائے: تم ہی اگر نہ سن سکے قصہ‘ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب کسی کا بھی اعتبار نہیں رہا۔میں تو خان صاحب سے بھی کہوں گا کہ وہ خوب غور و فکر کر کے بیان دیا کریں گے وگرنہ بندہ مذاق بن جاتا ہے۔ اب پرویز الٰہی کا یہ کہنا کہ کسی کو کسی نے دھوکہ نہیں دیا یعنی ڈبل گیم نہیں کھیلی تو اس پر انہوں نے کہا کہ باجوہ صاحب نے تو انہیں خان صاحب کے ساتھ شامل ہونے کو کہا اور انہیں غلط سمت جانے سے بچا لیا۔ لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ لوگ خان صاحب کی بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کھیل کھیلا گیا اور انہیں کی ہلہ شیری سے عدم اعتماد آیا۔یا یہ کہہ لیں کہ وہ اس عمل کو روک سکتے تھے اگر کوئی سمجھ سکے تو یہ ڈبل گیم کی بجائے ٹرپل گیم تھی۔ تینوں کو گائیڈ کرنے والے وہی کنگ میکر تھے جو بھی ہے پرویز الٰہی اصل اور حقیقی سیاستدان ہیں جنہوں نے شریف برادران کو سیاست سکھائی مگر وہ خود ان کا شکار ہوئے ان کی سیاست کی جڑیں صرف گہری ہی نہیں ہیں ادھر ادھر کو بھی نکلی ہوئی ہیں کچھ جڑیں تو پنڈی تک جاتی ہیں۔پرویز الٰہی اپنی جگہ بنا رہے ہیں کہ وہ ایسی پوزیشن میں رہیں یا انہیں اسی پوزیشن میں رکھا جائے کہ وہ دونوں دھڑوں کی ضرورت رہیں غیب کا حال تو اللہ کو معلوم ہے۔بہرحال پرانے برانڈ بکتے نظر نہیں آتے۔فراق گورکھ پوری کا ایک شعر: کل مقصد حیات کی کچھ بحث چھڑ گئی تیرا ہی نام ہم نے لیا بارہا لیا