وطنِ عزیز کو درپیش بحران معاشی نہیں، سیاسی یا قومی سلامتی کا بھی نہیں۔ مسئلہ اخلاقیات کے باب میں دیوالیہ پن کا ہے۔ سر زمینِ پاک کو اللہ نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ مسلسل نا انصافی کے رویے مگرجس دھرتی پرروا رہیں، وہاں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ خوشے خالی اور پھلوں میں سے رَس اُڑ جاتا ہے۔ نوجوان ہیں، منتظر ہیں کہ کسی سبز چراہ گاہ کو اُڑ جائیں۔ 8فروری والے دن جو جوق در جوق گھروں سے نکلے تھے۔ وہی پرانے چہرے مگر ایک بار پھر مسلط ہیں۔ اپنے ہی حلقے سے ہار گئے تو کیا دکھ ہے؟مجال ہے جو ایک لمحہ بھی ماتھے پر شکن اُبھری ہو ۔ بات متحارب سیاست دانوں ، ان کے حواریوں اور کاسہ لیس تجزیہ کاروں کی نہیں ۔ افسوس مگر اُن کے گروہی تعصب اور فکری افلاس پر ہوتا ہے کہ جن کو ہم کبھی معتبر سمجھتے تھے۔ کہا جا تا ہے کہ معاشرہ پولرائزیشن کا شکار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا حال ہی میں ہوا ہے ۔ کہا جاتا ہے یہ سب ایک شخص کی’پاپولسٹ‘ سیاست کا کیا دھرا ہے۔ کیا بھٹو صاحب سے بڑا کوئی پاپولسٹ بھی ہماری تاریخ میں گزرا ہے؟ یہ کیسے ہوا کہ ہر بات پر ایک جانب کے لوگ ایک بات کریں ، اور دوسری طرف والے ہمیشہ دوسری بات کریں؟ کبھی بیچ میںکوئی انصاف پر مبنی بات بھی تو ہو سکتی ہے۔ مہینوں بعد عدالت کے حکم پر قیدی اور جیلر کے درمیان ملاقاتیوں کا شیڈول طے پاتا ہے۔سینیٹر صاحب مگرتلملا کر پوچھتے ہیں،’ ملکی تاریخ میں کسی قیدی کے ساتھ ایسا معاہدہ کبھی پہلے بھی طے پایا تھا؟‘ سینیٹر صاحب کے اعتراض میں ضرور وزن ہے۔اپنی نوعیت کایہ پہلا معاہدہ ہے۔ سینیٹرصاحب مگر کیسے بھول جاتے ہیںکہ کسی قیدی کو محض ذہنی دبائو کا شکار ہونے کی بناء پر آٹھ ہفتے گھر منتقلی کی اجازت کی کوئی دوسری مثال بھی ہماری تاریخ میں نہیں ملتی؟ کسی سزا یافتہ شخص کو جیل سے نکال کرعلاج کے نام پر بیرونِ ملک بھیجے جانے کی سہولت بھی کبھی کسی اور کو دستیاب نہیں رہی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرانصاف کی بات منہ سے نکالنا گراں گزرے تو خاموشی پر اکتفا کیوں نہیں کرتے؟ مولانا پر کسی اور کو بھروسہ ہو تو ہو، ہم تو سمجھتے ہیںاب بھی اُ ن کو رام کیا جا سکتا ہے۔خوب سیانے ہیں۔ ایک بات کا ادراک انہیں مگرکل ہی ہواہے۔ فرمایا،جب کوئی زیرِ عتاب آتا ہے تو اس کے خلاف مقدموں اور سزائوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔اور جب عنایات برسنے لگیں تووہی مقدمے اور سزائیں گھنٹوں کے اندرتحلیل ہونے لگتے ہیں۔ حواری جب تاویلیں دیتے ہیں تو ان کی بات سمجھ میں آتی ہے۔جمہوریت پسندی کے دعوے دار لبرلز جب ’ ری سیٹ 2016-‘ کی تاویل گڑھتے ہیں تو احساسِ زیاںمیں شدت پیدا ہونے لگتی ہے۔ انتخابات کی اصلیت کو آشکار کرنے کے لئے کیا ایک کمشنر صاحب کی گواہی درکار تھی؟ پورا زمانہ جس امر کی گواہی دیتا ہے۔ خود حکومت پر براجمان لوگوں میں بھی کچھ باقی ہیںجو شفافیت کے سوال پر نظریں جھکا لیتے ہیں۔ٹی وی پر ان کے حواری اب بھی اس موضوع پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ صرف ایک دلیل بچتی ہے۔ سب اسی کے پیچھے چھپتے ہیں،’ 2018ء میں بھی تو ایسا ہی ہوا تھا‘۔سینے پر ہاتھ رکھ کر بولیں، کیا 2018ء میں سب ایسا ہی ہوا تھا؟ تو کیا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا؟ کل آپ کے ساتھ پھر ہو گا تو دوسرے کہیں گے کہ سال 2024 ء میںہمارے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہوا تھا۔ اے کاش، یوں جیتی ہوئی سیٹوں کو خود ہی ٹھکرا دیتے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کی طرح۔اکّا دکّا جن کی طرح کے اور بھی ہیں۔ افسوس کہ اکثر مگر مطمئن ہیں۔ جیتے ہوئوں کے حصے کی مخصوص نشستوں کو ہڑپ کرکے بھی مطمئن ہیں ۔ خفّت آخر کس چڑیا کا نام ہے؟سب جہاں دیدہ ہیں۔کیا تاریخ سے واقف نہیں؟ کیا انہیں یاد نہیں جب پچاس برس پہلے جیتی ہوئی جماعت کو اقلیت میں بدلنے کی خاطر اس کے 162منتخب ارکان میں سے 72کووطن دشمن قرار دے کر نااہل کر دیا گیا تھا۔ خالی ہونے والی نشستیں اُن جماعتوں میں بانٹ دی گئی تھیں، عوام نے جنہیں مسترد کیا تھا۔ ایک دانشورکی بیگم صاحبہ بیرسٹر سلمان اکرم کے سر ہو کر پوچھتی ہیں، ’ تمہاری تین بیٹیاں ہیں،میں بھی بیٹی کی ماں ہوں۔جس شخص نے کہا تھا کہ عورتوں کو جسم ڈھانپ کر رکھنا چاہیئے کہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔ بولو، تمھیںاُس سے ٹکٹ لینا چاہیئے تھا؟‘ شائستہ مزاج وکیل نے جواب دیا، ’ میرے پیشِ نظر معاملہ مگر کچھ اور تھا۔ سوال یہ تھا کہ میں جبر کا ساتھ دوں یا مظلوم کا۔‘حالیہ برسوں پاکستانی عورتیں جس طرح سیاست میں متحرک ہوئی تھیں، اب اس درجے میں واپسی کے لئے پچاس برس درکار ہوں گے۔ جیل میں پڑی عورتوں کا انجام دیکھ کراب کون اپنی بیبیوں کو جلسے جلوسوں میں بھیجے گا؟عورتوں کے حقوق کی علمبردار بیگم صاحبہ کو مگراس بات کا بھی کوئی ادراک ہے یا نہیں؟ پوچھتے ہیں، تمہارا ضمیراس وقت کیوں نہیں جاگا تھا، جب نواز شریف کو سزائیں دی جا رہی تھیں؟ ابھی کل کی ہی تو بات ہے ، جلسے جلوسوں میں جو اِسی ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی پاکبازی کی گواہیاں دیتے تھکتے نہیںتھے۔ آج چھ ججوں کی تضحیک پر آمادہ ہیں۔ گروہی تعصب کی کوئی تو انتہا ہونی چاہیئے۔ آثار بتاتے ہیں جلد ہی آپ پھر وہی پرانا’انقلابی‘ راگ الاپنے لگیںگے، اپنے رانا صاحب اور شیخو پورہ کے میاں صاحب ابھی سے ٹی وی پر جس کے ما تمی سُروں کو آئے روز چھیڑتے رہتے ہیں۔کل ایک قاضی القضاۃ کوجلسوں میں کھڑے ہو کر آپ للکارتے تھے۔شاید بھول گئے تھے کہ منہ سے نکلی ہر بات فضاء میں معلق رہتی ہے۔کبھی نا کبھی بازگشت کی صورت لوٹ کر ہمارے عین سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پوچھتے ہیں ، کل جس میرٹ کی روگردانی پر آپ بے چین ہواکرتے تھے، آج اُسی بات پر فدوی کا خط پڑھ کر آپ ناراض تو نہیں ہوں گے؟ ایچیسن کالج کے پرنسپل کے یوں مستعفی ہونے کا معاملہ کسی زندہ معاشرے میں کھڑا ہوتا تو کئی بڑے عہدوں کو از خود چھوڑ جاتے۔ وزیر موصوف کا مگرگورنر صاحب کے نام آخری خط پڑھنے کی چیز ہے۔ ’مرڈر آف ہسٹری‘ میں خورشید کمال عزیز نے جھوٹ پر پلنے والے ہم وطنوں کا کیاخوب نقشہ کھینچا ہے۔صرف آخری جملہ سنیئے،’رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں تو شرمسار نہیں ہوتے، اپنی پاکبازی پر اصرار کرتے ہیں۔‘ معاشی نہیں، سیاسی نہیں، آئینی نہیں،صرف اخلاقیات کے افلاس نے زرخیز دھرتی کو بانجھ کرکے رکھ دیا ہے۔ پھلوں سے رَس چوس لیا ہے۔اے لوگو، انصاف کی بات کیوں نہیں کرتے؟