سال 1964 میں امریکی حکومت کے سرجن جنرل کی سالانہ رپورٹ میں پہلی دفعہ تمباکو نوشی کو سائنسی طور پر مضرصحت قرار دیا گیا۔ اس کے بعد عوامی صحت عامہ کے اداروں اور تمباکو انڈسٹری کے درمیان تمباکو کے پبلک استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک طویل کشمکش کا آغاز ہوا، جو تاحال جاری ہے۔ صنعتی بنیاد پر تمباکو کی پیداوار اور فروخت کا آغاز تین سوسال پہلے ہوا تھا۔ ان تین صدیوں میں تمباکو انڈسٹری نے دنیا بھر کی قومی معیشتوں میں سرمایہ کاری اور ٹیکسوں کے مد میں اہم حیثیت حاصل کرلی ہے۔ سال 2022 میں ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق تمباکو کی عالمی صنعت کا مجموعی تخمینہ 850 ارب ڈالر ہے، جس کی اگلے پانچ سال میں بڑھوتی ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں تمباکو اور اس سے بننے والی اشیاء پر بھاری شرح سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور جب ایک صنعت مضرصحت مگر قانونی شے پر اتنا بھاری ٹیکس ادا کررہی ہو، تو پھر حکومتیں بھی سخت پالیسی اقدامات کے نفاذ کے باوجود اس صنعت کے لیے قانونی گنجائش نکال لیتی ہیں۔ تمباکو کی صنعت کی جڑیں حکومتی سطح پر بہت گہری ہیں، جنہیں اکھاڑنا اتنا آسان نہیں ہے۔ عالمی صحت ادارے کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباََ سترلاکھ لوگوں کی اموات تمباکو نوشی کی وجہ سے بیماریوں سے ہوتی ہے۔ عوامی صحت عامہ پر تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی کینسر، امراض قلب اور پھیپھڑوںکی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دنیا میں تمباکو نوشی کے خلاف بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے عالمی صحت ادارے کے تحت سال 2005 میں فریم ورک کنونشن برائے تمباکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کے معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا۔ ایف سی ٹی سی کی توثیق 180 سے زائد ممالک نے کی، جبکہ پاکستان اس معاہدے کے ابتدائی دستخط کنندہ میں شامل تھا۔ اپنی نوعیت کے اس پہلے معاہدے سے تمباکو کنٹرول کی عالمی کوششوں کو قومی سطح پر مزید منظم کرنے کو مہمیز ملی۔ حکومتوں، عالمی صحت ادارے اور دیگر عوامی صحت عامہ پر کام کرنے والے اداروں کے باہمی اشتراک کے فریم ورک کے تحت تمباکو کنٹرول کے اقدامات پر عملدر آمد شروع کردیا۔ ان اقدامات میں تمباکو نوشی پر ملکی سروے، تمباکو مصنوعات کی تشہیرپر پابندی، عوامی جگہوں پرتمباکونوشی کی ممانعت، سگریٹ پر بھاری ٹیکس کا نفاذ اور صارفین کو تمباکو نوشی ترک کرنے میں مدد فراہم کرنا شامل ہیں۔ اب ظاہری بات ہے کہ سینکڑوں ارب ڈالر مالیت کی تمباکو کی صنعت اپنی روزی پر لات مارنے والی ان کوششوں کو ٹھنڈے پیٹوں تو برداشت نہیں کرے گی۔ عالمی تمباکو کی %80 مارکیٹ دنیا کی پانچ بڑی کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں پہلے سگریٹ نوشی کی شرح بہت زیادہ تھی، وہاں قانون کی سخت گرفت سے انہوں نے سگریٹ کی کھپت کو کافی کم کرلیا ہے۔ مگر سگریٹ بنانے والی عالمی کمپنیوں نے اپنا رخ ترقی پزیر ممالک کی طرف کرلیا ہے، جن کا اگلے چند برسوں میں سگریٹ کی عالمی مارکیٹ کا %80 حصہ ہونگا۔ عالمی تمباکو کنٹرول سے منسلک ادارے بیشک اپنا بھونپو بجاتے رہے کہ ان کی انتھک کوششوں اور حکومتی سخت گیر اقدامات کی وجہ سے تمباکو نوشی میں کمی واقع ہورہی ہے۔ مگرمعروضی حقیقت کا ایک رخ اور بھی ہے۔ تمباکو نوشی کے خلاف سارے پالیسی اقدامات کے باوجود پاکستان میںتمباکو کی پیداوار میں کوئی خاطرخواہ کمی نظر نہیں آرہی ہے۔ اور تمباکو کی فصل مارکیٹ میں آرہی ہے تو پھر استعمال بھی ہورہی ہے چاہے قانونی یا غیر قانونی ذریعے سے بیچی جارہی ہو۔ پچھلے دس سالوں پاکستان کی تمباکو صنعت کے منافع میں نو گنا اضافہ ہوا ہے، جو 2013 میں تین ارب روپے سے 2022 میں پچیس ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اسی عرصے میں سرکاری خزانے میں ایکسائز اور سیلزٹیکس کی مد میں سگریٹ کمپنیوں کی ادائیگی دوگنی ہوگئی ہے، جو 2013 میں بیاسی ارب روپے سے بڑھ کر 2022 میں 167 ارب ریکارڈ کی گئی ہے۔ قانونی طور پر 2022 میں چون ارب سگریٹ فروخت کیے گئے۔ جبکہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غیرقانونی طور پر اکتیس ارب سگریٹ مزید فروخت کیے گئے۔ ان اعداد وشمار سے صاف ثابت ہورہا ہے کہ تمباکو کنٹرول کے کھیل میں تمباکو کی صنعت ہمیشہ دو قدم آگے ہی رہے گی۔ اب ذرا ہم پاکستانی تمباکو نوشوں پر بھی صرفِ نگاہ کرلیتے ہیں۔ تمباکوکنٹرول کے عالمی معاہدے کے تحت پاکستانی حکومت نے 2014 میں بالغ آبادی میں تمباکو نوشی کے استعمال اور متعلقہ رحجانات پر ملک گیر سروے کا انعقاد کیا۔ اس سروے کے مطابق تمباکو استعمال کرنے والوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زائد ہے، جو کہ ملک کی بالغ آبادی کا %20 بنتا ہے۔ جبکہ ان میں ایک کروڑ بتیس لاکھ سگریٹ نوش ہیں۔ روزانہ سگریٹ پینے کی شرح فی سگریٹ نوش چودہ سگریٹ ہے۔ اگر ہم یہ شرح تیرہ سگریٹ پر لے آتے اور اس کو حالیہ سگریٹ کی فروخت کی تعداد سے تقسیم کرتے ہیں، تو پاکستان میں 2022 میں سگریٹ نوشوں کی تعداد پونے دو کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ حکومتی سروے کے مطابق تقریباََ %60 سگریٹ نوشوں کا سگریٹ ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔