غربت ایک کثیر الجہتی مظہر ہے اس کے متعدد پہلوؤں کی بے شمار جہتیں ہیں جیرلڈ مئیر کے مطابق غربت سے مراد "Inability For a person to attain a minimum standard of living" جہاں غربت میں انسان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے ہیں کہ وہ زندہ رہنے کے لیے کم از کم بنیادی خوراک، رہائش، علاج اور لباس خریدنے کے قابل ہو وہیں وہ خطرناک حد تک قدرتی آفات، تشدد، جرائم اور بیماریوں کے لیے متوقع شکار یعنی vulnerable ہوتا ہے سیلاب اور زلزلوں میں غریب لوگوں کی ہر شے تباہ برباد ہو جاتی ہے پاکستان ایک غریب ملک ہے جہاں ایک شخص کو 2250 کیلوریز خوراک حاصل کرنے کے لیے(عالمی بنک کے پاکستان کے لیے بنچ مارک 3.65 ڈالر ز فی کس روزانہ) یعنی 800 سے 900 روپے خرچ کر نے کی قوت خرید درکار ہے ۔1990 میں غربت کا معیار ایک سے سوا ڈالرز تھا اور ابھی بھی دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں غربت کی سطح سوا ڈالرز ہی ہے مگر پاکستان میں جب مہنگائی کی شرح 30 فیصد ہوگی تو کم از کم ضروریات زندگی خریدنے کے لیے زیادہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور اوپر سے یہ ستم اگر ایک شخص روزانہ 800 سے ہزار روپے کما بھی لے تو اس پر کنبے کے پانچ سات لوگوں کا بوجھ بھی ہوتا ہے 1990 میں پاکستان میں جو شخص ایک ڈالرسے کم کماتا تھا تو وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتا تھا اس وقت 31 فیصد پاکستانی poverty Absoluteکا شکار تھے یعنی بمشکل سسک سسک کے زندگی گزار رہے تھے اور محض دو ڈالرز روزانہ آمدنی حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد 84.7 فیصد تھی اور انہیں ہم poverty Relative کا شکار کہتے ہیں ان افراد کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہو تی ہے پاکستان میں 40 فیصد بچے growth stuntedکا شکار ہیں اور اکثر پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ عالمی بنک نے 2023 میں پاکستان کو جنوبی ایشیا کا سب سے مہنگا ملک قرار دیتے ہوئے غربت کی لکیر کا پیمانہ 3.16 ڈالرز فی کس روزانہ مقرر کیا ہے جبکہ گزشتہ ایک سال میں یعنی پی ڈی ایم کے دور حکومت میں ایک کروڑ 25 لاکھ افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں اور کل آبادی میں 34.2 فیصد سے بڑھ کر یہ شرح 39.4 فیصد پر پہنچ گئی ہے یعنی 9 کڑور 50 لاکھ افراد مکمل غربت کے مہیب جال میں ہیں اور اس کے برعکس امراء کے کتے بھی امپورٹڈ بسکٹس اور ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں موج میلہ کر رہے ہیں، علاوہ ازیں اس سکیل کو ڈبل بھی کر لیں تو تب بھی 90 فیصد افراد ایسے ہیں جو r poo relatively ہیں یعنی وہ محض خوراک اور لباس اور ایک کمرے میں آٹھ دس افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔2000 میں پاکستان میں غربت کی شرح 33.5 فیصد تھی اور بنگلہ دیش میں 48.9 فیصد تھی۔ آج بنگلہ دیش میں یہ شرح 18.17 فیصد ہے اور ہم چالیس فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 2503 ڈالرز اور ہماری 1538 ڈالرز ہے یعنی بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی ہم سے 60 فیصد زیادہ ہے۔ ہندوستان میں غربت کی شرح 2015 میں 24.85 فیصد تھی اور اب 14.96 فیصد ہے ایک ہم ہیں لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جہنیں تصویر بنا آتی ہے ناموافق معاشی حالات، شدید مہنگائی، بیڈ گورنس، سیاسی عدم استحکام اور ہائبر ڈ نظام حکومت نے پاکستان کے عوام کی اکثریت کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میںدھکیل دیا ہے ایک زرعی ملک میں لوگ آٹا، سبزیاں خریدنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں ۔گزشتہ سال معاشی ترقی کی شرح افزائش 0.6 فیصد تھی اس سال بمشکل 1.7 فیصد رہنے کا امکان ہے جب آبادی کی شرح افزائش 2 فیصد سے زائد ہو گی تو کیسے پاکستان میں غربت اور مہنگائی کم ہو سکتی ہے اس کے لیے کم از کم 6 فیصد ترقی کی نمو ہو تو کچھ بہتری کے آثار نظر آئیں گے۔ وگرنہ پاکستانی عوام کو آنے والے کئی برسوں تک کوئی معاشی ریلیف ملنے کے امکانات نہیں ہیں ۔1974 کے بعد پاکستان مہنگائی غربت اور بیروزگاری کی بلند ترین سطح پر پر ہے عالمی بنک کے مطابق غربت مٹانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ناکافی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ امراء پر براہ راست ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے اور ٹارگٹڈ سبسڈی صرف غریبوں کو دی جائے اور حکومتی غیر ترقیاتی اخراجات میں 2723 ارب روپے تک کمی کی جائے کیونکہ پاکستان کو عالمی بنک نے غریب مقروض ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا ہے جس کے قرضے 2027 میں جی ڈی پی کے 89.3 فیصد تک پہنچ جائیں گے اور گزشتہ ایک سال میں ہما رے مجموعی قرضہ جات 49200 ارب سے بڑھ کر 62880 ارب تک پہنچ گئے ہیں اور موجودہ مالی سال میں بیرونی قرضوں میں 13640 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں عالمی بنک کے کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان ہائی لیکوڈٹی رسک، کم زرمبادلہ، اور غیر مستحکم سیاسی ماحول اور ڈیٹ سروسنگ جیسے سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے اگر چہ اب کرنسی پر سٹہ بازی، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ہونے والی سمگلنگ کو کنٹرول کرنے کے جو تادیبی اقدامات کئے گئے ہیں ۔اس سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے مگر اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ انتخابات کے بعد ن لیگ قائم ہونے والی حکومت معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے موجودہ اقدامات کو جاری و ساری رکھے گی، خصوصاً جن کی راہوں سے کانٹے چنے جا رہے ہیں اور ان کو مسیحا بنا کر لایا جا رہا ہے۔ وہ دوبارہ پی ڈی ایم کی ٹیم کو مسلط کر کے عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیں گے اور پاکستان میں آسیب کا سایہ کبھی نہیں ٹلے گا۔ اگر آپ کو کوئی امید اور آس ہے تو کیا کہا جاسکتاہے مگر پاکستان کے باشعور عوام کی اکثریت آزمائے ہوؤں کو آزمانے سے عاجز آچکے ہیں کیونکہ نہ تو ان میں صلاحیت اور سکت ہے ۔