شعر و ادب میں بیوی کو ایک اضافی کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو یہ حقیقت ہی کا عکس ہے۔اس کی تحسین اور توصیف میں شاعر نظمیں نہیں کہتے بلکہ وہ کوئی اور ہی خیالی محبوبہ ہوتی ہے جس کے لیے شعر بھی کہے جاتے ہیں اور نظمیں بھی تراشی جاتی ہیں۔البتہ مزاحیہ شاعری میں بیوی پر خوب لکھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ایسا ہی لکھا جاتا ہے جو تفنن طبع کا باعث بنے۔ہمارے ہاں لطیفوں میں ایک خوفناک ،سخت گیر بیوی کا کردار ہوتا ہے۔جس میں بچارا شوہر بیوی کی ڈکٹیٹرشپ کا شکار دکھائی دیتا ہے۔حالانکہ حقیقت میں کہانی اس کے برعکس ہوتی ہے۔ عورت کے لئے مرد بطور والد اور بھائی کے محبت کرنے والا بھی ہے اور تحفظ دینے والا بھی ہے یہی مرد جب کسی کا شوہر بنتا ہے بعض اوقات اس کے مزاج میں وہ کانٹے نکل آتے ہیں جو پہلے کسی کو کبھی دکھائی ہی نہیں دئیے ہوتے۔ ایک مرد بطور باپ اور بھائی کے شفیق ہے، تحفظ دینے والا ہے اور درگزر کرنے والا ہے مگر وہی شخص شوہر کے طور پر اپنی بیوی کے ساتھ نوکیلے اور کھردرے مزاج کا کیسے ہو جاتا ہے۔ بعض مرد شوہر کے روپ میں بہت خوفناک ہوجاتے ہیں۔ میں ان تمام مردوں سے جو اس وقت میرا کالم پڑھ رہے ہیں گزارش کروں گی کہ اگر آپ بھی ایک عدد بیوی کی شوہر ہیں تو اپنے مزاج کو اپنی شریک حیات کے ساتھ بھی ملائم رکھیں آپ کی توجہ بھی ان کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم ترین ضرورت ہے ۔ان کے کاموں کی تعریف کریں۔ان کو سپورٹ کریں اور ان کو درگزر کریں اور اپنے شب و روز کی مصروفیت میں ان کو بھی توجہ دیں انہیں اپنی زندگی کا اضافی کردار نہ سمجھیں۔ایسی باتیں سن کر مرد حضرات کے پاس گھڑا گھڑایا جملہ ہوتا ہے کہ ہم تو اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ساتھ ہی وہ اس خیال کی فہرست بھی سنا دیتے ہیں کہ ان کی فرمائش بھی پوری کرتے ہیں ان کی مدد کے لیے گھر میں ایک مددگار عورت بھی آتی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔۔ لیکن آپ کی زبان بعض اوقات کھردری ہوتی ہے۔اپ ان کے ساتھ جو بھی گفتگو کرتے ہیں اس میں طنز اور طعنوں کے تیر چھپے ہوتے ہیں۔آپ اپنے تمام تر اچھے برتاؤ کو گفتگو کے کھردرے پن کی وجہ سے زیرو کر دیتے ہیں۔ تذلیل اور تضحیک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کو گالیاں دینے لگ جائیں،یا اس کے ساتھ لڑائی کرنے لگ جائیں ۔ جب آپ اپنے سب سے قریبی رشتے کے ساتھ ہمہ وقت طنزیہ گفتگو کرتے ہیں یا پھر آپ نے اپنی زندگی کی مصروفیات کو اپنے اوپر اس طرح حاوی کیا ہوا ہے کہ اپنی بیوی کو دینے کے لیے وقت ہی نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک طرح سے ان کے وجود کی تضحیک ہے۔ اگر آپ کے پاس زندگی کی سب نعمتیں موجود ہیں مگر آپ ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے جڑے نہیں ہوئے تو زندگی لطف اور رچاؤ سے خالی رہے گی۔بہت سارے مردوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے دفتر سے واپس آکر اپنی بیوی کے پورے دن کا آڈٹ ایک باس کی طرح کرتے ہیں۔ آپ کے طنز اور طعنے سے بھرے چند جملے آپ کی بیوی کے پورے دن کو برباد کر سکتے ہیں۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے پھر ایک جگہ عورتوں کو آبگینے کہاگیا اب اس لفظ آبگینے کے اندر ہی سب کچھ موجود ہے کہ آبگینہ قیمتی اور نازک ہوتا ہے جس کی حفاظت کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں ایک پبلک پارک میں واک کرنے جاتی ہوں میں نے اکثر دیکھا کہ میاں بیوی واک کر رہے ہیں مرد نے تو بڑے اچھے واکنگ جوگرز پہنے ہوتے ہیں جبکہ بیوی نے گھر کی چپل پہنی ہوئی ہے یا ایسا جوتا پہنا ہوا ہے،جو واک کے لیے آرام دہ نہیں ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ایسے شخص کو کو روک کر کہوں کہ اپنی بیوی کو بھی آرام دہ جوتے لے دو ۔ بہت ساری عورتوں کے اندر یہ حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ضرورت کی بات اپنے شوہر کے سامنے رکھیں۔ بیوی کو یہ حوصلہ دینا بھی شوہر ہی کا کام ہے ان کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کریں کہ وہ اپنی ضرورت کی بات بھی آسانی سے آپ کے سامنے کر سکیں۔ یہ بھی مشاہدہ ہے کہ کئی گھروں میں بچوں کی فرمائشوں کو ان کی ماں کی ضرورت پر ترجیح دی جاتی ہے ان پر پیسے دل کھول کر لگائے جاتے ہیں لیکن بچوں کی ماں کی ضرورت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ٹھیک ہے آپ گھر کے تمام اخراجات برداشت کرتے ہیں پھر بھی اپنی کمائی میں سے بیوی کے ہاتھ پر صرف اس کی ذات کے لئے تھوڑی بہت رقم پاکٹ منی کی صورت میں رکھ دیں اور یقین رکھیں کہ وہ اپنی فطرت کے مطابق یہ سب کچھ بھی گھر اور بچوں پر لٹا دے گی۔ میں ایک شاپنگ مال میں تھی اور میں نے دیکھا کہ ایک میاں بیوی مختلف ریکس میں جا کر چیزیں دیکھ رہے ہیں۔ بیوی جو چیز پسند کرتی شوہر عجیب انداز اس کی نفی کر دیتا۔میرے سامنے ہی ایسا کوئی تین چار بار ہوا ایسا لگ رہا تھا کہ یہ شوہراوربیوی نہیں بلکہ آقا اور غلام ہیں۔سچ پوچھیں تو میں نے وہاں اپنا غصہ مشکل سے کنٹرول کیا۔ہمارے معاشرے کے 80 فیصد گھرانے اسی ماحول میں سانس لیتے ہیں۔اور عورتوں کے سمجھوتوں کی وجہ سے ایسے گھر بچے ہوئے ہیں اور ان گھرانوں میں آپ دیکھیں کہ عورتیں کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہیں۔اگر ان کی ذات کی مسلسل نفی ہو رہی ہے وہ شوہر کے کھردرے پن کے سامنے ضرور خاموش ہوجاتی ہیں مگر اس کی پوری نفسیات اس کی سوچ کا پورا نظام پھر ایک بیماری کی صورت ری ایکٹ کرتا ہے ۔ عورتوں کے عالمی دن پر یہی کہنا کہ پنی ترجیحات کی فہرست میں اپنی بیوی کا نام بھی تحریر کرلیں ان سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے لہجے کو ملائم رکھیں انہیں اپنی توجہ کے دائرے میں رکھیں ۔ بیوی کو اپنی کہانی زندگی کا اضافی کردار نہ سمجھیں۔