ایران میں جمعہ یکم مارچ 2024 کو "پارلیمنٹ" کی 12ویں مدت اور "ماہرین کی اسمبلی" ( Experts of Assembly ) کی 6ویں مدت کے انتخابات منعقد ہوئے ہیں جس کے حتمی نتائج کا ایک دو روز میں اعلان ہوجائے گا۔ ان انتخابات کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ ایران کی 85 ملین آبادی میں سے 61 ملین سے زیادہ افراد پارلیمنٹ کے 290 اور ماہرین کی اسمبلی کے 88 ارکان کا انتخاب کرنے کے اہل تھے۔ آٹھ سالہ مینڈیٹ کے ساتھ ایک ادارہ، جسے "ماہرین کی اسمبلی" کے نام سے جانا جاتا ہے، رہبر انقلاب اسلامی کی سرگرمیوں کی نگرانی کا ذمہ دار ہے، اور اس کے پاس رہبر کی تقرری یا برطرف کرنے کا اختیار ہے۔ ماہرین کی اسمبلی کے 88 ارکان آٹھ سال کے لیے منتخب ہوں گے جنہیں ملک کے سپریم لیڈر کے انتخاب کا کام سونپا گیا ہے۔ نئی متخب ہونے والی ماہرین کی اسمبلی نے 84 سالہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے جانشین کا انتخاب کرنا ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق ایران کے موجودہ صدر ابراہیم رئیسی ملک کے مشرقی صوبے جنوبی خراسان میں 82.5 فیصد ووٹ حاصل کر کے "ماہرین کی اسمبلی" کی چھٹی مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح 290 رکنی پارلیمنٹ ، جسے رسمی طور پر "اسلامی مشاورتی اسمبلی" کے نام سے جانا جاتا ہے، کی مدت چار سال ہے اور اس کے انتخابات میں تقریباً پندرہ ہزار امیدواروں نے حصہ لیا ہے جن میں سے اکثریت رجعت پسند امیدواروں پر مشتمل ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ان میں سے صرف 116 کو نسبتاً اعتدال پسند یا اصلاح پسند امیدوار سمجھا جاتا ہے جبکہ اصلاحات کے حامی بہت سارے امیدوار انتخابات کی دوڑ سے باہر کردیے گئے۔ تمام امیدواروں کے انتخاب لڑنے کی اہلیت کا فیصلہ طاقتور آئینی ادارے نے کیا ہے جسے "گارڈین کونسل" کہا جاتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ گارڈین کونسل، جس کے آدھے ارکان براہ راست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس سال، ایران کی گارڈین کونسل، جو ایک طاقتور 12 رکنی کونسل ہے جس کے ذمے انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کا کام ہے، نے 12,000 سے زیادہ امیدواروں کو پارلیمانی نشستوں میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا اور سابق اعتدال پسند صدر حسن روحانی کو بھی "ماہرین کی اسمبلی" کے لیے انتخاب لڑنے سے روک دیا۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیے گئے ایران کے سابق صدر حسن روحانی کی چہرے پر بڑی مسکراہٹ کے ساتھ ووٹ ڈالنے کی تصویر بنائی گئی۔ عملیت پسند ایرانی رہنما حسن روحانی 2013 اور 2017 میں ایران کی سفارتی تنہائی کو کم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے جیت کر صدر منتخب ہوئے تھے۔ سابق وزیر خارجہ جواد ظریف جیسے ان کے اصلاحات پسند ساتھی بھی اپنی رہائش گاہ کے قریب ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ اس کے برعکس ایران کے پہلے اصلاح پسند صدر محمد خاتمی ان ناقدین میں شامل ہیں جنہوں نے جمعے کو اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ گزشتہ دہائیوں میں ایرانی انتخابات میں عمومی طور پر ٹرن آؤٹ 70 فیصد دیکھا گیا، حالیہ برسوں میں ووٹروں میں بے حسی کا رجحان دیکھا گیا ہے کیونکہ 2020 کے پارلیمانی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 42.5 فیصد کی ریکارڈ کم ترین سطح پر آیا، جب کہ 2016 میں تقریباً 62 فیصد ووٹرز نے حصہ لیا۔ 2021 کے صدارتی انتخابات، جس میں قدامت پسند رہنما ابراہیم رئیسی صدر منتخب ہوئے، میں صرف 48 فیصد ووٹرز نے اپنا ووٹ ڈالا جبکہ 2009 میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ تقریباً 85 فیصد تھا۔ سرکاری میڈیا نے غیر سرکاری رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 41 فیصد رہا ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کی 45 سالہ تاریخ میں سب سے کم ٹرن آؤٹ ہے۔ اوپر دیئے گئے ٹرن آؤٹ کے اعدادوشمار کے مطابق ایران میں ووٹروں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کی بڑی وجہ حکومت پر اعتماد میں کمی ہے۔ کم ٹرن آؤٹ کے پیچھے بنیادی وجوہات میں "معاشی پریشانیاں" اور "آبادی میں یہ احساس کہ وہ سیاسی تبدیلی کا حصہ نہیں ہیں" شمار کی جاسکتی ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں جمعہ کے روز ہونے والے پارلیمانی اور ماہرین کی اسمبلی کے ارکان کے انتخاب کے لیے ایرانی عوام کے بڑے پیمانے پر ٹرن آؤٹ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ٹرن آؤٹ ملک کے مخالفین کے لیے ایک دھچکا ہے اور یہ ٹرن آؤٹ قوم کے لیے مزید وقار اور عزت کا باعث بنا ہے اور جس سے دشمنوں کو مایوس ہوئی ہے۔ ایران میں ہونے والے حالیہ انتخابات کو اس وجہ سے بھی اہمیت دی جارہی ہے۔ ایرانی قانون کے تحت، ایرانی پارلیمنٹ کے متعدد کردار ہوتے ہیں جن میں ایگزیکٹو برانچ کی نگرانی شامل ہے اور اسے زیادہ تر مقامی امور پر اثر انداز ہونے والے قوانین بنانے کا کام سونپا جاتا ہے، جس میں معیشت سے متعلق مسائل باقاعدگی سے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں، ایرانی پارلیمنٹ قانون سازی کرنے کے معاملات میں اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنی ہے جس میں انٹرنیٹ کی آزادی اور خواتین کو خود کو ڈھانپنے جیسے ایشوز کے متعلق قانون سازی ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں براہِ راست بہت کم کردار ادا کرتی ہے۔ ایران کے صدر اگرچہ خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرتے ہیں تاہم حقیقی اختیار ملک کے سپریم لیڈر اور طاقتور آئینی ادارے "گارڈین کونسل" کے پاس ہوتا ہے کیونکہ گارڈین کونسل اسلامی جمہوریہ میں قانون سازی کے معاملات کی نگرانی کرتی ہے اور پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیے گئے تمام بلوں کو قانون بننے کے لیے کونسل سے نظرثانی اور منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ مخالف امیدواروں سے بہت سی نشستیں جیتنے کی توقع نہیں ہے، مگر بہت سے ایرانیوں کو امید ہے کہ منتخب ہونے والی نئی مقننہ اصلاحات کی راہ ہموار کرے گی۔ ایران کے پارلیمانی انتخابات ایران کی داخلی سیاست کی بنیادی حرکیات کو تبدیل نہیں کریں گے، خاص طور پر قدامت پسند اور سخت گیر طبقے کے زیر تسلط اور نہ ہی اس کا ایرانی داخلی یا خارجہ پالیسی سے متعلقہ آج کے اہم ترین مسائل پر فیصلہ سازی پر کوئی براہ راست اثر پڑے گا جن میں خاص طور پر ایران کی نیوکلیئر پالیسی، بڑھتی ہوئی سخت اقتصادی پابندیوں کی بدولت اس کی آبادی کو درپیش معاشی بوجھ، اور ایران اور اسرائیل یا امریکہ کے درمیان براہ راست فوجی تصادم کے امکانات جیسے ایشوز شامل ہیں۔