سوالات کے انبار لگے ہیں، تین بنیادی سوال کا جائزہ لے لیتے ہیں، کیا قومی اسمبلی ملک کی سب سے بڑی عدالت کیخلاف قرارداد پیش اور منظور کر سکتی ہے؟ کیا حکومت واقعی انتخابات کیلئے فنڈز مہیا کرنے کی استعداد نہیں رکھتی؟ کیا سیکورٹی کی صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ انتخابات کا انعقاد یقینی نہیں بنایا جاسکتا؟ قومی اسمبلی میں اعلیٰ عدلیہ اور ججز کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی آئین اجازت نہیں دیتا، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے نومنتخب رکن محسن لغاری نے ایوان میں اس کے خلاف آواز بلند کی تو سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ججز کے فیصلوں کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے، تاہم اگر عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف ایوان میں قردار پیش اور منظور کی جاسکتی یا ایسی کوئی آئینی یا کم از کم جمہوری روایت ہوتی تو جس وقت یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیر اعظم نااہل کیا گیا، اس وقت قردار منظور کر کے عدالت عظمی کے فیصلے کو محض مسترد کر کے وقت کے وزیر اعظم کو بچا لیا جاتا، نواز شریف اس موقع پر یہ تاریخی جملے ادا نہ کرتے کہ آئین پر ایک تو کیا دس وزیر اعظم قربان ہیں، یہ ملک ہے کوئی جنگل نہیں، اس کے بعد جب نواز شریف کو پانامہ لیکس کیس میں نااہل کیا گیا، ن لیگ کے پاس قومی اسمبلی میں دو تھائی اکثریت موجود تھی، وہ ایک قرارداد کے ذریعے عدالتی فیصلے کو پس پشت ڈال دیتی اور نواز شریف جی ٹی روڑ پر مجھے کیوں نکالا کی صدائیں بلند کرنے کی بجائے وزیر اعظم پاکستان رہتے، اس کے علاوہ بھی جب جب عدلیہ سے کوئی ایسا فیصلہ آتا جسے وقت کی حکومت اپنے مفاد کے خلاف جانتی، وہ صرف ایک قردار کے ذریعے اپنی من مرضی کرتی چلی جاتی، گویا کہ کوئی مسئلہ کبھی لاحق ہی نا ہوتا لیکن بات آئین کی حاکمیت کی ہے، جمہوریت جسے متوازن بناتی ہے اور عدلیہ جیسے ریاست کے اہم ادارے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کے مجاز ہیں، یہاں جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت اور جسٹس ایم آر کیانی کی آئین کی پاسداری کا تذکرہ ضروری ہے، ماضی میں پی سی او ججز اور بعدازاں جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت متعدد ججز کی بحالی اور جوڈیشل ایکٹووازم بھی سب کے سامنے ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کی سزا کا فیصلہ بھی ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اعتراف کیا تھا کہ اس فیصلے کی بابت جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا عدلیہ پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔ حکومت ماضی کے نظریہ ضرورت کے فیصلوں کو جواز بنا کر انتخابات سے فرار چاہتی ہے اور اس کا ملبہ موجودہ عدالتی فیصلے پر ڈالنا چاہتی ہے کیونکہ اسے مکمل علم ہے کہ یہ پنجاب میں بری طرح شکست سے دوچار ہوگی۔ ن لیگ پنجاب سے اپنا صفایا دیکھ رہی ہے، بہرحال یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سپریم کا پانچ رکنی بینچ جیسے جیسے تین رکنی بینچ میں تبدیل ہوا، اس تین رکنی بنچ پر دباؤ تھا کہ وہ اس کیس کو زیر سماعت نہ لائے، اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ عدالتی فیصلے کے ذریعے نظریہ ضرورت کو رد کیا گیا، نظریہ ضرورت طالع آزماؤں کی حکومتوں میں حکومتی دباؤ کو قبول کرنے کا نتیجہ تھے جبکہ حالیہ فیصلے میں دباؤ مسترد کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ ایمرجنسی اور حتی کہ مارشل لاء کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، بعض ناقدین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کو گھر کے اندر سے نااہل کروانے کی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک پنجاب کے اخراجات کی حد تک 21 ارب کے اخراجات کی استعداد کا تعلق ہے، اس کا اندازہ ورلڈ بینک کی اس رپورٹ سے لگائیں، جس میں برملا واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت 17 صوبائی وزارتوں پر بیشتر منصوبوں کیلئے 710 ارب روپے خرچ کر رہی ہے، ان وزارتوں پر جو 18 ترمیم کے بعد وفاق کی ذمہ داری نہیں، وزیر اعظم 170 ارب روپے لیپ ٹاپ سکیم پر الگ صرف کرنا چاہتے ہیں، کیا اب اس پر کوئی شبہ باقی ہے کہ پنجاب کے انتخابی اخراجات تخمینہ 21 ارب روپے وفاقی حکومت فراہم کرنے کی استعداد رکھتی ہے یا نہیں؟ دراصل شکست کا خوف ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے سے بھی باز نہیں رکھ رہا۔ سیکورٹی خدشات کا تذکرہ بھی بار بار انتخابات کے التواء کے جواز کے طور پر بہم پیش کیا جاتا ہے۔ 2007 میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام کے بعد پیپلز پارٹی کی تاحیات چیئرپرسن مخترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا، ملک بھر میں ہنگامے شروع ہوگئے، جسے آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر رکوایا۔ 18 فروری 2008 ء میں انتخابات کا انعقاد ہوا، ملک بھر میں دہشت گردی عروج پر تھی، سیکورٹی اداروں پر بھی ملک دشمن دہشتگردانہ حملے کر رہے تھے، پرویز مشرف مرحوم صدر مملکت تھے، ان کو بھی دہشت گرد نشانہ بنانے کی ناکام کوششیں کر چکے تھے۔ خدا کی پناہ بعض اوقات ایک دن میں دو دو دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوجاتے مگر ہمارے سیکورٹی اداروں کے بہادروں نے انتخابات کی سیکورٹی کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا۔ 2013 کے عام انتخابات کی مہم شروع ہوئی تو بے رحمانہ دہشتگرد حملوں میں اے این پی کو قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے الزام عائد کیا کہ ایک سازش کے تحت صرف اور صرف ن لیگ اور پی ٹی آئی انتخابی مہم چلا پا رہی ہیں، ہمارا راستہ روکا جارہا ہے لیکن انتخابات بہرحال ہوئے، کیا موجودہ حالات 2008,ء 2013ء اور 2018ء سے زیادہ مخدوش ہیں؟ بالکل نہیں، اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے ہمارے دفاعی اداروں کی کاوشوں اور قربانیوں کی بدولت حالات ماضی کے ان متذکرہ انتخابی زمانوں کی نسبت بہت پرسکون اور محفوظ ہیں، ایسے میں طے ہوتا ہے کہ انتخابات کی راہ میں ایسی کوئی روکاوٹ نہیں، جس درجے کا شور شرابا کرتے ہوئے خوف و ہراس پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حیرت ہے ،یہ پہلی حکومت ہے جو ان خامیوں کی بھی ذمہ داری لینے کو تیار ہے جو سرے سے موجود ہی نہیں۔ مان لیں سیاست میں کچھ ناممکن نہیں، چاہے موجودہ حکومت کے انتخابات سے فرار کے تماشے ہی کیوں نہ ہوں۔