خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے ۔ کیا ہمیں کچھ خبرہے اس میں ہمارے لیے امکانات کے کتنے جہاں آباد ہو سکتے ہیں؟ایران اور سعودی عرب کا قریب آنا کوئی معمولی پیش رفت نہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ Antithetical ideological conflict جس نے مسلم دنیا کو گرفت میں لے رکھا ہے ، ختم ہونے جا رہا ہے۔ دنیا میں مختلف نظریات کے حامل ممالک میں تلخی اور تصادم ہوتا رہتا ہے لیکن جب یہ تلخی ایک ہی نظریے کے اندر وجود میں آ جائے تو یہ اس نظریے کے حاملین کے لیے بہت سنگین ہو جاتی ہے۔ یہAntithetical ideological conflict کہلاتا ہے ۔اس کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ عرب نیشنلزم کے اندربعث پارٹی کی کشمکش نمایاں ہے اور اس کو ہم عرب دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ کمیونزم میں چین اور لینن اسی تنائو کے فکری حوالے ہیں اور اسلامی فکر میں ایران اور عرب کشیدگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس کشمکش نے کس کس شکل میں ظہور کیا اور اس کے نتائج کیا ہے ، انہیں بیان کی حاجت نہیں ،یہ سب ہمارے سامنے کی بات ہے۔ اس نئی صف بندی کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کا محرک امریکہ نہیں بلکہ چین ہے۔ امریکہ اور چین کی حکمت عملی دو متضاد رویے ہیں۔ اس فرق کو سمجھنا چاہیے۔ امریکہ جہاں جاتا ہے وہاں تخریب تباہی تنازعات اور انتشار کو فروغ دیتا ہے اور اس کی آڑ میں اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔ چین جہاں جاتا ہے وہاں تباہی اور بربادی کی بجائے معاشی امکانات لے کر جاتا ہے ۔ وہ تباہی اور بربادی کی بنیاد پر اپنا اثر و رسوخ نہیں بڑھاتابلکہ وہ سب کو ایک معاشی ڈور سے باندھ لیتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ اسی کا ایک ثبوت ہے۔ امریکہ کی پالیسی کا بنیادی محور تصادم ہے ۔ چین کی پالیسی کا بنیادی محور عدم تصادم ہے۔امریکہ کسی علاقے میں صف بندی کرتا ہے تو یہ ایک جنگی بندو بست ہوتا ہے لیکن چین جب کہیں صف بندی کرتا ہے تو اس کا حوالہ جنگ اور بربادی نہیں، معیشت اور خوش حالی ہوتی ہے۔ چین جذباتی انداز سے فیصلے نہیں کرتا۔ وہ دنیا کا’’ عقل مند بزرگ‘‘ ہے۔ Wise old man۔ وہ جو قدم اٹھاتا ہے سوچ سمجھ کر اٹھاتا ہے۔غیر ضروری تو کیا بعض اوقات ضروری رد عمل بھی نہیں دیتا۔وہ عملیت پسند ہے۔ حال ہی میں جب گلوان وادی میں بھارت اور چین کی کشمکش کی وجہ سے بھارت میں چین مخالف مظاہرے ہوئے چین نے بھارت سے کاروبار منقطع کرنے کی بجائے اس تلخی میں بھی اپنے لیے معاشی امکانات پیدا کر لیے ۔ اس نے بھارت کو ایسی ٹوپیاں اور شرٹیں بیچنا شروع کر دیں جن پر چین مخالف نعرے لکھے ہوتے ہیں۔ چین کی دشمنی میں بھارت کے لوگ بڑھ چڑھ کر یہ شرٹس خریدتے رہے اور اس کا فائدہ وہی چین ا ٹھاتا رہا۔ امریکہ کہیں جاتا ہے تو وہاں کے وسائل پر قابض ہوجاتا ہے۔ اس کی لڑائیاں ہی بالفعل دیگر اقوام کے وسائل پر قبضے کے لیے ہوتی ہیں یا اس قبضے کو لاحق خطرات کے تدارک کے لیے۔ چین جہاں جاتا ہے وہاں وسائل پر قبضے کی بجائے وسائل سے مل جل کر فوائد حاصل کرنے کے منصوبے لے کر جاتا ہے۔ اس پس منظر میں جب چین کی مدد سے ایران اور سعودیہ قریب آ رہے ہیں تو اس پیش رفت میں بھی جہان معنی پوشیدہ ہے۔چند پہلو یہ ہیں: اس پیش ر فت میں امریکہ کہیں نہیں ہے۔اس کا رد عمل بہت محتاط اور سرد ہے جو بتا رہا ہے وہ اس سے پریشان ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد یہ پہلی بار کچھ ایسا ہونے جا رہا ہے،جو امریکی آشیرباد کے بغیر ہو رہا ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ چین اس طرح متحرک ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ اب دنیا یونی پولر نہیں رہی۔ اب چین پورے تحرک کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔اس کا ایک اثر یہ بھی پڑے گا کہ ایران پر لگی پابندیاں اپنی معنویت کھو دیں گی اور خطے کے ممالک ایران سے تجارت کریں گے۔ اس کی آخری تو نہیں مگر اہم ترین چیز یہ ہے کہ مقامی ممالک اپنی تجارت مقامی کرنسی میں کریں گے اور ڈالر کی محتاجی ختم ہو گی۔ اس پیش رفت میں پاکستان کے لیے امکانات کا جہاں آباد ہو رہا ہے۔ پاکستان جو بوجوہ ایرا ن گیس پائپ لائن پراجیکٹ مکمل نہ کر سکا اب کر سکے گا اس کا پاکستان کو غیر معمولی فائدہ ہو گا۔ پاکستان تجارت کے لیے ڈالر کا محتاج رہتا ہے ، یہ ایک یہ محتاجی کم از کم خطے کے ممالک سے تجارت میں ختم ہو جائے گی۔برکس ممالک بھی مقامی کرنسی میں تجارت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور چین اس میں مرکز و محور ہے اور چین اور سعودی عرب کے درمیان بھی ڈالر کی بجائے یو آن میں پٹرول خریدنے پر معاملات طے ہو چکے ہیں۔ڈالر کی غیر ضروری چودھراہٹ کے لیے یہ بہت بڑا دھچکہ ہو گا اور پاکستان کے لیے اس میں بہت سارا خیر ہو گا۔ چاہ بہار کی بندر گاہ جسے بھارت گوادر کے مقابل لا کر گوادر کے امکانات کم کرنا چاہتا تھا اب بھارتی پراکسی نہیں رہے گی۔ جب خطے میں تجارتی امکانات بڑھیں گے تو بھارتی پراکسی کی بجائے اب یہ گوادر کی معاون بندر گاہ بنے گی۔ بلوچستان میں جاری تخریب کاری اور دہشت گردی سے نبٹنا آسان ہو جائے گا۔ بلوچستان میں متحرک ا ن عناصر کے لیے ماحول سازگار نہیں رہے گا اور بلو چستان میں معاشی امکانات فروغ پائیںگے۔ اس سارے منظر نامے میں پاکستان تب ہی فائدہ اٹھا سکے گا جب وہ اپنے داخلی معاملات کو بہتر کر لے گا۔ جب تک ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے،خطے کے ان امکانات سے ہم مستفید نہیں ہو سکیں گے۔سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ یہ جمع تفریق آپ کو خود کرنا ہو گی کہ سیاسی عدم استحکام کی وجوہات کیا ہیں اور ملک کو دائمی ہیجان اور اضطراب و احتجاج کی کیفیت میں رکھنا کس کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ آخری اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ خطے میں ہونے والی یہ پیش رفت جو امریکی تسلط کے لیے ایک کاری ضرب ہو سکتی ہے امریکہ کو کیسے ہضم ہو گی۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا کر سکتا ہے اور کس حد تک جا سکتا ہے۔ اس سوال کے مختلف جوابات ہو سکتے ہیں لیکن سر دست ہم اس جواب تک محدود رہتے ہیں جس کا تعلق ہم سے ہے۔ چین کے اس منصوبے میں پاکستان اہم ترین ملک ہے۔ باقی ممالک تو اب شامل ہورہے ہیں پاکستان بہت پہلے سے چین کے ساتھ کھڑا ہے۔یہ معاملات اگر پاکستان ہی میں الجھ جاتے ہیں ، سیاسی انتشار کی وجہ سے یا فراتفری کی وجہ سے یا کسی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سی پیک پر کام سست ہو جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے تو اس کے مضر اثرات اس سارے پراجیکٹ پر پڑیں گے۔ اس لیے ہمیں اس وقت سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ ا س معاملے میں ہر سطح پر یکسوئی کی بھی ضرورت ہے۔