زمین پہ ہر طرف ریت ہی ریت، ریت میں ایستادہ پہاڑ، پہاڑوں کے بیچوں بیچ چشمے، چشموں کے اُس پار سفید مٹی کے ذخائر، ان سب کے درمیان رن آف کچھ۔یہ تھرپارکر کی تحصیل نگر پارکر ہے، پاکستان کے اِس خطے کا جغرافیہ پاکستان کے کسی دوسرے خطے سے نہیں ملتا، یہ اپنی نوعیت کا بالکل مختلف خطہ ہے۔ ورنہ کہاں ریت کے صحرا میں بلند و بالا پہاڑ، جھیلیں اور جنگل ایک ساتھ نظر آتے ہیں، کون سا خطہ ہے جہاں آپ کے ہر طرف رنگ برنگے مور اُڑتے پھرتے ہوں، پاکستان میں کہاں ہوتا ہے کہ سڑک پہ اچانک ہرن نمودار ہو اور دائیں جانب کے جنگل سے نکل کے بائیں جانب جا گھسے، کہیں کہیں جنگل میں خوبصورت نیل گائے بھی دکھائی دیتی ہیں، موسمی پرندے جھیلوں پہ اترتے ہیں اور بے خوف ہو کے پانی میں ڈبکیاں لگاتے ہیں، شکار کی پابندی پر سختی سے عمل ہوتا ہے تبھی یہ سارے خاندان خوش و خرم ایک ساتھ بستے ہیں۔ نگر پارکر پاکستان کا پر امن ترین علاقہ بھی ہے مگر غربت کا مارا ہوا، وسائل اور کام کی کمی نہیں ہے، کھیتی باڑی یہاں خوب ہوتی ہے۔ پیاز، سرخ مرچ اور دوسری فصلیں لہلہاتی دکھائی دیتی ہیں، بارشیں اچھی ہوں تو قسمت جاگ جاتی ہے، جانور پیٹ بھر کے کھاتے اور خوب توانا ہوتے ہیں۔ایک ایک خاندان کے پاس سیکڑوں جانور ہیں۔جب یہ بازار میں بکتے ہیں تو خوشحالی ان کے چھوٹے سے روایتی ''چوارے'' میں پوری آب وتاب کے ساتھ رنگ جماتی ہے، پیاز کی فصل اترتی اور ٹرک بھر بھر کے منڈی جاتے ہیں، تو علاقے میں کروڑوں روپیہ داخل ہوتا ہے۔اس سب کے باوجود پسماندگی اس خوبصورت تحصیل کا مقدر ہے، زیادہ تر علاقوں میں بجلی اور صاف پانی موجود نہیں، پیسے آ جانے کے باوجود یہ لوگ اپنا پکا گھر نہیں بناتے، اپنے انہی روایتی ''چواروں'' میں رہتے اور سانپوں سے بچنے کے لیے اونچی اونچی چارپائیوں پہ سوتے ہیں جسے یہ مقامی زبان میں مچانیں کہتے ہیں۔سندھ کے باقی علاقوں کی طرح یہاں بھی وڈیرے کا خوف انہیں سر اٹھانے نہیں دیتا۔جانور بیچ کے گھر بنائے گا تو وڈیرے کی نظروں میں آئے گا، وڈیرے کی نظروں میں آئے گا تو جان بچا کے کہاں جائے گا۔ نگر پارکر پاکستان اور بھارت کی بین الاقوامی سرحد پہ واقع ہے۔یہ سرحد انگریزی حرف تہجی ''U'' شکل میں ہے، یوں سمجھیے کہ نگر پارکر اس U کے پیٹ میں واقع ہے یعنی یہ شہر تین اطراف سے بھارتی باڑ میں گھرا ہوا ہے۔سرحدی شہر ہونے کے باعث یہ ایک حساس علاقہ بھی ہے۔1965 میں اس شہر نے رن آف کچھ کی مشہور لڑائی بھی دیکھی۔رن مقامی زبان میں پانی کے ایسے ذخیرے کو کہتے ہیں جو خاص موسم میں ایسی دلدل کا روپ دھار لیتا ہے کہ دیکھنے میں تو وہ پانی لگے لیکن اس پہ پائوں رکھیں تو زمین میں دھنستے چلے جائیں، سرحد کے دوسری جانب بھی ایسا ہی زمینی چیلنج موجود ہے، 1965 میں بھارت ایسی زمین پر اپنے ٹینک نہیں لا سکتا تھا، لہذا رن آف کچھ کی لڑائی میں بری طرح پھنس گیا۔اس کے بعد اس نے پانی میں سڑکیں بنا کر اپنی اس کمزوری پہ قابو پانے کی کوشش کی مگر اس علاقے کی حساسیت اب بھی برقرار ہے۔ اسی سرحد سے ملحقہ گرینایٹ کے وسیع و عریض پہاڑ موجود ہیں جو بلا شبہ اربوں کھربوں کی مالیت کے ہیں، سندھ کی سیاسی قوتیں ان پہاڑوں کے وسائل پہ قبضہ کرنے کی روزحکمت عملی بناتی رہتی ہیں، اس سلسلے میں کئی مذموم کوششیں بھی ہو چکی ہیں، مگر سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے اب تک انہیں ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ان کرپٹ سیاسی قوتوں کا بس چلے تو اس عرض پاک کی مٹی بھی بیچ ڈالیں۔ویسے آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ نگر پارکرکے کچھ کچھ علاقوں کی مٹی واقعی پاکستان بھر میں فروخت بھی ہوتی ہے۔یہاں کچھ علاقوں میں سفید رنگ کی ایک مخصوص مٹی زمین سے نکلتی ہے جو چینی کے برتن بنانے کے کام آتی ہے، گوجرانوالہ کی چند بڑی فیکٹریاں اس مٹی کی مستقل خریدار ہیں۔ چند سال پہلے مجھے چین کا صحرائے گوبی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔جب میں صحرا میں پہنچا تو ہمسفر سے پوچھا صحرا کہاں ہے، بتایا گیا یہی صحرا ہے۔ میں حیرت سے دیکھتا رہا ،فصلیں لہلا رہی تھیں ،صحرا میں نہروں کا جال بچھایا گیا تھا۔صحرا یوں شہر بن چکا تھا جیسے کبھی صحرا تھا ہی نہیں۔ ویسے دبئی بھی ایک صحرا ہی ہوا کرتا تھا، کوئی چاہے تو کیا کیا کمالات دکھائے جا سکتے ہیں۔ ہم مگر اب بھی صدیوں کے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال پاکستان کے اس خطے کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ اندھیرے میں ڈوبے اس پسماندہ علاقے کی ایک بلند پہاڑی پر کھڑے ہو کر سرحد کے اس پار نگاہ ڈالیں تو وہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہوتا ہے۔دوسری طرف گجرات اور راجستھان واقع ہے۔ تھرپارکر کے برعکس راجستھان میں بجلی، سڑکیں، سکول، صحت کی بہترین سہولتیں، سیاحت اور نہ جانے کیا کیا دکھائی دے گا اور اِدھر ہمارے ہاں صرف وڈیرہ شاہی، حرص، کرپشن اور اندھیرے میں ڈوبی ایک نگری۔ صرف یہ نگری ہی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہاں کے باشندوں کے نصیب بھی اندھیروں میں ڈوب چکے ہیں۔جبکہ یہاں صرف سیاحت کا ہی اتنا پوٹینشل موجود ہے جو اس خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ یہاں کی ستر فیصد آبادی ہندووں پہ مشتمل ہے، غربت کے باوجود چوری چکاری اور لوٹ مار کا یہاں کوئی واقع پیش نہیں آتا۔یہاں کی ہندو خواتین آج بھی اپنی روایتی ساڑھی اور بازووں میں کندھے تک سفید چُوڑے پہنتی ہیں۔آج بھی ریتلی گلیوں میں یہ خواتین سر پہ تین تین گھڑے رکھے گھروں کو پانی لاتی دکھائی دیتی ہیں۔اونٹ آج بھی کنووں سے پانی نکالتے نظر آتے ہیں۔چند سو میٹر کے فاصلے پر لگی باڑ کے اُس جانب ہمارا ہمسایہ روشنیوں میں نہا رہا ہے، ہم تاریکی میں ڈوبے سانپ کے کاٹے کی ویکسین تلاش کرنے میں لگے ہیں۔