تخت سے درد کے مارے اترے یعنی پاتال میں تارے اترے سب نے دیکھا تھا پرندوں کو مگر چشم بین پر اشارے اترے اور پھر جھوٹ کیا ہے کہ کسی کے دل میں ہم بھی آنکھوں کے سہارے اترے اصل میں دو تین روز سے اپنے آبائی شہر چشتیاں میں آیا ہوں جی وہی چشتیاں جو حضرت بابا تاج الدین سرور چشتی شہید کے نام سے موسوم ہے اور یہاں قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاوریؒ کا مزار بھی ہے۔دنیا کے لئے فیض عام ہے۔چالیس بتالیس سال کے بعد ایسا ہوا کہ میں نے اپنے آبائی شہر میں کچھ روز گزارے کہ مرے ہمراہ پیر احسان اللہ شاہ ہیں اور یہاں کچھ وراثت کے معاملات تھے اور پھر یہاں محبت کرنے والوں نے مجمع لگائے رکھا۔ آج کل سیاست کا بھی یہاں بہت زور ہے۔آپ کے علم میں ہے کچھ یوم قبل یہاں عمران خاں نے آ کر تاریخی جلسہ کیا اور پھر مریم نواز نے بھی آ کر میلہ لگایا مقصد بتانے کا یہ اس شہر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یقیناً یہ سیٹ ن لیگ کی ہے کہ یہ عبدالستار خان لالیکا کا علاقہ ہے۔لیکن اب کے یہی سنا ہے کہ ملک مظفر اعوان جو کہ پی ٹی آئی کے ہیں بہتر پوزیشن میں ہیں کہ موجودہ مہنگائی نے ن لیگ کو گہنا دیا ہے ہاں اگر نواز شریف واپس آ گئے تو اور بات ہے ملک اختر علی نے بتایا کہ نواز شریف کے لوگ دیوانے ہیں۔ اب میں دل کی بات کروں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ یہی شہر جہاں سڑکیں بھی بنائی گئی تھیں اس وقت کھنڈر بنا ہوا جس طرف جائو سڑکیں ادھڑی پڑی ہیں کوئی پرسان حال نہیں کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ میں قبرستان اپنی والدہ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گیا اور پھر داتا حضور حبیب اللہ شاہ کی قبر پر گیا جہاں کتبہ آویزاں تھا: ہر شعر مرا عشق نبیؐ کا ہے شرارہ ہر نعت مری مسجد نبوی کی اذاں ہے میں نعت کا شاعر ہوں مجھے فخر ہے اس پر بازار سخن میں مری ہیروں کی دکاں ہے آپ یقین کیجیے کہ قبرستان اس قدر ویران ہو چکا ہے کہ غالب یاد آ گیا کہ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا سخت تکلیف ہوئی کہ قبریں بری طرح برباد ہو چکی ہیں ۔دل خون کے آنسو رویا کہ اہل شہر کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنے کاروبار اور کام کاج میں اس قدر کھو گئے کہ بھول گئے کہ آخر وہیں آنا جس کو وہ بھول چکے اور قبرستان ویرانہ بن گیا۔ عید گاہ کو جاتی ہوئی سڑک مکمل طور پر مٹی میں بدلی ہوئی ایک دم سب کچھ افسوسناک ۔ملک اختر نے بتایا کہ سبزی منڈی کا علاقے کا تو بالکل ہی ستیا ناس ہو چکا۔ ڈاہرانوالہ روڈ ہارون آباد روڈ بھی اکھڑ چکی ہیں۔ دکھ کی بات یہ کہ جب اہل چشتیاں سے بات کرتے ہیں تو وہ بٹر بٹر دیکھتے ہیں جیسے میں نے کوئی نئی بات پوچھ لی۔ اصل میں وہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک بڑی منڈی ہے یہاں پاکستان کی بہت بڑی شوگر مل یعنی بہاولنگر شوگر مل یہاں ہے بہاولنگر ضلع ہے لیکن تحصیل چشتیاں میں ہے ۔ اعظم بھٹی صاحب مجھے مل روڈ پر سے مل دکھانے لے گئے اور یوں لگا کہ میں کہیں آثار قدیمہ میں آ گیا ہوں۔ سڑک ختم ہو چکی مٹی بھی چھوٹی موٹی پہاڑیاں بن چکی نئی آبادیاں ضرور بن رہی ہیں اور جو زرعی زمینیں تھیں وہ شادی ہالوں میں یا کالونیوں میں بدل چکیں بلکہ یہاں کے لوگ بھی بدل چکے۔ آبادی کافی بڑھ گئی ۔ اگر خیال نہیں تو شہر کی صحت کا کسی کو خیال نہیں۔ لاتعلق سے لوگ حالانکہ یہاں کے چیئرمین حمید احمد صدیقی اعلیٰ آدمی ہیں مگر شہر شاید کسی کے بس کی بات نہیں جب تک کہ ایم این اے اور ایم پی اے دلچسپی نہیں لیتے۔ احسان الحق باجوہ یہاں ن لیگ کے ایم این اے رہے اور پھر ایم پی اے رہے اب امان اللہ باجوہ یعنی ان کے بھائی الیکشن لڑ رہے ہیں۔کچھ نہ کچھ ان سے بھی پوچھنا چاہیے کہ یہاں لوگ گردو غبار میں کیوں رہ رہے ہیں ایک بہاولنگر روڈ ہے جو کچھ بچی ہوئی ہے باقی اللہ ہی حافظ ہے۔یہاں پوسٹ گریجوایٹ کالج ہے یہاں کے اساتذہ ملک بھر میں شہرت رکھتے ہیں مثلاحافظ زمان اور محمد یوسف جیسے اساتذہ ہیں مگر کتنے ہی لوگ ڈاکٹر اور انجینئر بن کر ملک کے طول و ارض میں پہنچے۔یہاں ایک روحانیت بھی ہے کہ پیران کا تذکرہ میں کر چکا۔عرس ہوتا ہے تو ایک اور شہر آباد ہو جاتا ہے۔آخر میں ایک چیز کا تذکرہ بہت ضروری کہ یہاں بچیوں کی دینی تعلیم کا بہت شہرہ ہے آپ سن کر حیران ہونگے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ باقاعدہ مدرسہ تعلیم النسا قائم ہوا جہاں مولانا محمد صالح اور عبدالجبار کو آج بھی لوگ عقیدت سے یاد کرتے ہیں ہم نے جامعہ اسلامیہ امدادیہ کا دورہ بھی کیا جسے مفتی محمد زاہد چلا رہے ہیں یہاں بچیاں حفظ بھی کر رہی ہیں اور عالمہ بن کر نکلتی ہیں اس کے علاوہ خدیجتہ الکبریٰ کو ڈاکٹر حبیب اللہ غوری دیکھتے ہیں۔ تیسرا ادارہ جامعہ سیدہ حلیمہ سعدیہ جسے قاری محمد طلحہ چلا رہے ہیں بچیوں کو دینی تعلیم کے زیور آراستہ کرنا ہی اصل کام ہے۔ ایک بچی ہی اصل میں معاشرہ تشکیل دیتی ہے مجھے فخر ہے کہ میری والدہ کلثوم ان اداروں کے ساتھ وابستہ رہیں اور دین کی خدمت کرتی رہیں اللہ پاک ان اچھے لوگوں کو اور زیادہ توفیق دے کہ اس کے دین کی خدمت کرتے رہیں اختتام میں اپنے والد نصراللہ شاہ مرحوم کے شعر سے کروں گا: تیری میری گل نہیں گل اے اصول دے شان مرے رب دی تے رب دے رسولؐ دی