شیخ خلیفہ پہلے ابوظہبی بعد ازاں متحدہ عرب امارات کے وہ حکمران تھے جنہوں نے لوئیور ابوظہبی میوزیم،نیو یارک یونیورسٹی ابو ظہبی، سوربون یونیورسٹی ابوظہبی، اتحاد ائیر ویز اور دیگر کئی ایسے منصوبہ جات کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جن سے متحدہ عرب امارات بین الاقوامی سطح پر تعارف ہوا۔ شیخ خلیفہ نے ریت کے ٹیلوں میں سے دنیا کی سب سے بڑی عمارت بْرج خلیفہ کھڑی کرکے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ شیخ خلیفہ نے ’آئل اکانومی‘پر انحصار کم کرکے اپنے ملک کا رْخ ثقافت اور تجارت کی طرف موڑ دیا اور چندہی سال میں دبئی عالمی سطح پر معاشی طاقت بن کر اْبھرا۔ ایک نشست میں ممبر سنڈیکیٹ کلثوم اختر نے ایک خوبصورت جملہ بولا ’دبئی کے حکمرانوں کے پاس صرف ریت ہے جسے بیچ کر انہوں نے دبئی کو معاشی طاقت بنا دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر عمران رشید کا جملہ اِس حوالے سے اور زیادہ خوبصورت اور قابلِ تعریف ہے کہ ’دنیا دبئی کے صحراؤں میں گھومنے آتی ہے اور دبئی کے حکمران بہاولپور(چولستان) کے صحراؤں سے لطف اندوز ہونے پاکستان کا انتخاب کرتے ہیں۔ رحیم یار خان میں دبئی روڈ پر ابو ظہبی محل اس کی منہ بولتی مثال ہے۔ شعبہ سیاحت و مہمان نوازی (ٹورازم اینڈ ہاسپیٹیلیٹی منیجمنٹ) دنیا بھر میں مینوفیکچرنگ کے بعد دوسری بڑی صنعت ہے حتی کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھی بڑی صنعت ہے۔ایک اندازے کے مطابق ترکی سالانہ تیس ارب ڈالرز سیاحت و مہمان نوازی سے کماتا ہے۔ سری لنکا، فلپائن اور تھائی لینڈ کی معیشت کا زیادہ تر انحصار سیاحت و مہمان نوازی کی صنعت پر ہے۔ پاکستان کے دو صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کی معیشت کا انحصار بھی زیادہ تر سیاحت و مہمان نوازی پر ہے۔ بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ملک ہے مگر بھارت میں ٹورازم ڈیسٹی نیشن پاکستان کی نسبت بہت کم ہیں۔ بھارت میں گواء اور شملہ سمیت ایک دو اورجگہیں ایسی ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا سامان مہیا کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں کسی بھی علاقہ کو منتخب کریں تو دس سے بارہ مقامات ایسے مل جاتے ہیں جہاں سیاح دلچسپی رکھتے ہیں، شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر،سوات، مری،نارووال، جہلم، ننکانہ صاحب، لاہور، شیخوپورہ، فیصل آباد، ٹیکسلا، ساہیوال، خانیوال، ملتان، ہڑپہ، بہاولنگر، بہاولپور، رحیم یار خان، موہنجوداڑو، کراچی، پشاور، گوادر، کوئٹہ غرض کسی بھی شہر کو دیکھ لیں تو سیروسیاحت اور مہمان نوازی کی صنعت کا سامان لیے ہوئے ہیں، دوسرے الفاظ میں پورا پاکستان سیاحوں کی آنکھ کا تارا بن سکتا ہے۔ پاکستان میں کئی طرح کی سیر و سیاحت موجود ہے،جس میں ثقافتی، مذہبی، گرمی و سردی سیاحت شامل ہے، مثلاََ گْرد وارہ دربار صاحب، ننکانہ صاحب، راجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی بھارت، کینیڈااور آسٹریلیا کے سکھوں کے لئے انتہائی مقدس مقامات ہیں، کٹاس راج مندر، کرشنا مندر(لاہور) ہندوؤں کے مقدس مذہبی مقامات ہیں۔ دربار حضرت داتا گنج بخش، بی بی پاک دامن، دربار شاہ جمال، سہیون شریف میں سخی لعل شہبازقلندر دربار، خیر پور میں دربار سچل سرمست، ملتان میں شاہ رکن ِ عالم، شاہ شمس تبریز، بہاؤ الدین زکریا اور حضرت محمد شاہ یوسف گردیزی، اوچ شریف میں بی بی جیوندی کا مقبرہ اور دیگر مقبرے موجودہیں،کہاجاتا ہے یہاں دنیا کی پہلی یونیورسٹی اوچ شریف میں قائم ہوئی، یونیسکو نے اوچ شریف کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا ہواہے، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی، مٹھن کوٹ راجن پور میں خواجہ غلام فریداور دیگر کئی ایسے مقدس مزارات موجود ہیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں حتی کہ غیر مسلم افراد کے لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹیکسلا کے مندر بھارت، تھائی لینڈ، سری لنکا، چین اور میانمر میں بدھ مذہب کے پیروکاروں کے لئے خاص اہمیت رکھتے ہیںیعنی پاکستان اکیلا مذہبی ٹورازم کو فروغ دے کر سالانہ اربوں ڈالرز کما سکتا ہے، پروفیسر ڈاکٹر جواد اقبال کے بقول جنوبی پنجاب میں تو ’وِنٹر ٹورازم‘ کو فروغ دے کر ہم دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کراسکتے ہیں، یہ درست ہے کہ جنوبی پنجاب کے صحرائے چولستان کا فلورا اور فانا دنیا کے دیگر صحراؤں کی نسبت بہت مختلف ہے۔ کراچی اور شمالی علاقہ جات کے درمیان جنوبی پنجاب واقع ہے، یہاں ہر طرح کا لینڈ سکیپ موجود ہے،جنوب مغرب میں فورٹ منرو ہے جس کا درجہ حرارت مری سے محض پانچ ڈگری کم ہوتا ہے، بہاولپور میں لال سہانرا پارک ہے جہاں کالے ہرن، شیر اور دیگر جانور وں کی افزائش نسل کی گئی ہے۔ہمارے چولستان صحرا کے اندر 25کے قریب ایسے شہر موجود ہیں جو ہاکڑا تہذیب کے دور کے معلوم ہوتے ہیں۔ دنیا یہاں آتی تھی مگر ہمارے بیس سال دہشت گردی کی نظر ہوگئے اور بین الاقوامی سیاح ہم سے دور ہوگئے،اب معاملات بہتری کی جانب گامزن ہیں، 2020ء میں دنیا کے ایک میگزین نے پاکستان کوٹورازم کے لئے سرفہرست رکھاہے،بیس سال کے وقفہ کے بعد پاکستان سیاحوں کے لئے نئی دنیا ہے،سیاحت کی صنعت سے کئی صنعتیں وابستہ ہیں، مثلاََ جہاں سیاحت ہوگی، وہاں ریسٹورینٹ،ہوٹل، موٹل بنیں گے، مقامی کھانوں،ثقافتی چیزوں کو فروغ حاصل ہوگا، جب سیاحت کی سرگرمی ہوتی ہے تو ایئرلائن، ٹرانسپورٹ سمیت دیگر چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں،پروفیسر ڈاکٹر عمران رشید کہتے ہیں کہ ہمارے پاس مہارتوں سے لیس ہنر مند افراد کی کمی ہے، مری کے واقعہ سے یہ بات سامنے آئی کے ہمارے مقامی سیاحوں میں یہ آگاہی تک نہیں کہ ایڈونچرٹورازم کے لیے کون کون سے لوازمات درکار ہوتے ہیں،اِن مسائل کی روشنی میں 2020ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ٹورازم اینڈ ہاسپیٹیلٹی منیجمنٹ (سیاحت و مہمان نوازی) قائم کیا گیا، ابتدائی سطح پر بی ایس پروگرام کا اجراء کیا گیا، وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے ویژن کے مطابق جب بی ایس لیول ایجوکیشن کے طلبہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونگے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک میں بھی کام کرسکیں گے،مزید برآں یہی بہترین وقت ہے کہ حکومت ِ پنجاب ’چولستان ٹورازم اتھارٹی‘قائم کرے جس کے تحت تعلیمی اداروں میں آگاہی سیمینار کرائے جائیں، کورسز کا اجراء کیا جائے، تربیت یافتہ ہنر مند افراد پیدا کیے جائیں جو جنوبی پنجاب کی تاریخی جگہوں کے متعلق تاریخی معلومات رکھتے ہوں، مقامی اور غیر ملکی کلچر کی پہچان رکھتے ہوں، قلعوں، محل، شہروں، مزارات، پارکوں، صحرا کے متعلق مکمل آگاہی رکھتے ہوں، حکومت چولستان اتھارٹی کے پلیٹ فارم سے اہم سیاحتی مراکز پر ہوٹل کی تعمیر کرے، اچھے ریسٹورینٹ بنائے جائیں، پولیس اور ضلعی حکومتوں کی معاونت سے سکیورٹی کا منظم انتظام کیا جائے تاکہ غیر ملکی سیاحوں کو محفو ظ انداز میں سیرو سیاحت کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔