جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اکثریت کی بات مانی جائے اور اقلیت کو ناصرف بات کرنے دی جائے بلکہ ان کی بات سنی جائے۔ اگر آگے بڑھنا مقصود ہے تو ماضی پر لکیر کھینچنی ہو گی۔ کیونکہ ہم سب اتنی غلطیاں کر چکے ہیں کہ ہم خود اپنے آپ سے شرمندہ ہیں اور ہمارے پاس اپنے اعمال کے ارتکاب کا کوئی جواب بھی نہیں ہے۔ ہمارے حکمران سیاستدان یا پھر ادارے سب غلط فیصلوں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں ۔وہ دفاع کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے تو پھر یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے ایک میز کے گرد سب بیٹھ جائیں ایک دوسرے کو شرمندہ کرنے کے بجائے خود اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے آئندہ کے لئے کوئی راستہ تلاش کریں۔ سب کو سب سے پہلے اپنے مفادات اور انا کے گھوڑوں سے اتر کر زمین پر قدم رکھنا ہو گا ۔ہم ذرا غور کریں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے زیر کرنے اور خود سرخرو ہونے آگے نکل جانے اور اپنی بات منوانے کے چکر میں ہم اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں بھی گنوا بیٹھے۔عجز انکساری ،درگزر کے اوصاف سے بھی محروم ہو گئے اور ہم نے اس گورکھ دھندے میں اپنے خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ کشمکش میں کئی دھائیاں ضائع کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک ہجوم سے قوم نہ بن سکے۔ آج تک یہ سویلین حکومت ہو یا ملٹری رول کسی نے قوم تعمیر نہیں کی۔کوئی نیا نظام نہیں دیا، کسی سسٹم کی اصلاح نہیں کی۔ انصاف دلایا ،نہ تعلیم ،نہ صحت ،نہ عزت ،نہ طبقاتی تفریق ختم کی اور نہ ہی معاشی عدل قائم کیا۔ حکمران اور اشرافیہ نے اپنے مفادات کے کھیل میں اس قوم کو یہاں تک پہنچا دیا اب الیکشن سر پر ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا اصرار ہے کہ پاکستان کے عوام اسے ووٹ دیں اس وقت تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں دو بڑے اہم ادارے ہیں۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ جن کی فکر اور فیصلے پاکستان کی پوری تاریخ پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اگلی حکومت بنائے گی یہ پارٹی خود سے سوال کرے کہ انہوں نے اپنی طویل دور حکومت میں سندھ کی خوشحالی‘ عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی کے لئے کیا کام کیا اس جماعت کو چار بار مرکز میں حکومت ملی ،انہوں نے کتنے عوامی بہبود کے فلاحی منصوبے بنائے۔ امن و امان کی صورت حال کو پرامن رکھنے کے لئے کیا اقدامات کئے اور زمینی حقائق کیا ہیں ۔یہی حال تعلیم اور صحت کا ہے سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو NICVDکے علاوہ صحت کے شعبے میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ۔سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرنے کے لئے بہت سے ایسے کام کئے جا سکتے تھے جن سے پرائیویٹ سکولز اور کالجز کی مونوپولی اور من مانیوں کو لگام دی جا سکتی تھی۔ آپ کے منشور میں سب سے اہم بات روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تھا ۔سندھ کے اعشاریوں پر ایک نظر ڈال لیں یہاں کا طرز معاشرت اور معیار کا جائزہ لیں یہاں کی شہری اور دیہی آبادی کے بنیادی مسائل کو دیکھیں ۔یہاں کے طول و عرض میں کتنے صنعتی زون قائم کئے گئے ملازمتوں کے کتنے مواقع پیدا کئے گئے ۔یہ ملازمتیں میرٹ پر کس روز دی گئیںکرپشن کا دور دورہ رہا،کچے کے ڈاکو تو جنگلوں تک محدود رہے۔پکے کے ڈاکوئوں نے تو ہر سرکاری ادارے میں لوٹ مار کے نت نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ ان میں سے چند مثالیں دی جائیں تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔یہ حال سندھ کا ہی نہیں پورے پاکستان کا ہے۔ میں اس میں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوار کا تذکرہ نہیں کر رہا۔بھٹو صاحب سے غلطیاں بھی ہوئیں لیکن کارناموں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ آئین کی تیاری سے لے کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدا تک اسلامی بلاک کی تشکیل کے لئے گرانقدر کارنامے سے لے کر 1971ء کے بعد انتہائی مشکل حالات میں ملک کی قیادت تک لیکن یہ درست ہے کہ ان کی نیشنلائزیشن پالیسی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ بے نظیر بھٹو نے مشکل وقت میں جمہوریت کا دفاع کیا۔کمپرومائز بھی کئے اور میثاق جمہوریت جیسی مثال بھی قائم کی۔ نواز شریف شکی مزاج انسان ہیں ۔ گرمجوشی سے ملتے ہیں، سنتے سب کی ہیں لیکن کرتے اپنی ہیں۔ کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے کہ دل میں کیا ہے۔ اس لئے اہم مملکتی فیصلوں میں نجانے کہاں کہاں کی کوڑیاں نکال لاتے ہیں۔90کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کشمکش اور نیچے دکھانے کی سیاست نے نہ انہیں سکون سے کام کرنے دیا نہ محترمہ اپنی مدت پوری کر سکیں۔ اوپر سے 58-2Bکی تلوار لٹکتی رہی کئی بڑے منصوبوں پر ضرور کام کیا لیکن معاشرے میں جس تمدنی اور ارتقائی تبدیلی کی ضرورت تھی نواز شریف وہ ذمہ داری نہیں نبھا سکے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلسل سینگ پھنسانے کی روایات نے خود انہیں ہر بار غیر یقینی سے دوچار کئے رکھا۔ پھر اہم تعیناتیوںمیں انہوں نے 90کی دہائی میں جس طرح من مانی کا وطیرہ اپنایا بالآخر اس نے پاکستان میں لنگڑے لولے جمہوری نظام کا خاتمہ کر دیا اور پرویز مشرف نے بڑی چابکدستی سے ایک دھائی تک اس ملک پر اپنی حکمرانی جمائے رکھی۔ نواز شریف نے غلطی یہ کی تھی کہ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دور میں ترجیحات کو وقت اور ضرورت کے برخلاف اپنی مرضی اور منشا کے تابع رکھا۔ پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی اور نواز شریف نے اپنی سیاست کو اپنے مخالفین کو دبانے اور ہاتھ مروڑنے میں استعمال کیا۔ شاید خدشات اور اندیشوں میں گھر کر پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے اپنے جارحانہ حریف عمران خان پر ایک ایسا وار کرنے کی غلطی کی جس نے ان کے سیاسی اثاثے اور حمایت کو نہ صرف مسمار کر دیا بلکہ عمران کی تیزی سے لڑھکتی ہوئی مقبولیت کو ایک نئی لائف لان فراہم کر دی چار سال بعد وطن واپسی کے بعد یوں لگتا ہے کہ نواز شریف سب کچھ دیکھ رہے تھے وہ سب کچھ سن رہے تھے لیکن جواب نہیں دے رہے تھے۔ہاں یہ بات یقینی ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ انتخابات کب ہوں گے جب گھڑی ٹک ٹک شروع ہوئی تو وہ پلٹ آئے۔نواز شریف کی خوبی یا خامی یہ ہے کہ وہ اپنے پتے شو نہیں کرتے وہ فیصلہ سازوں کے رابطوں میں بھی ہیں جو فیصلے کرنے کے باوجود بھی مخمصے میں ہیں کہ اگلا قدم وہ پورے اعتماد اور یقین سے کس طرف بڑھائیں۔ عدالتیں چاروں طرف سے اپنی جانب بڑھتے ہوئے ان ہاتھوں کو دیکھ رہی ہیں جو ان سے انصاف کے طلب گار ہیں ترازو کو قانون اور انصاف کے مطابق رکھنا ان کا بھی امتحان ہے۔ عمران خان اپنی ضد، ہٹ دھرمی کی کمزوریوں کے سبب سلاخوں کے پیچھے بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ پا رہے کہ وہ جس طرح اپنی حماقتوں سے پارٹی تڑوا بیٹھے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت کے چیک کیش ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ نہ جانے ہمارے ان لیڈروں اور نااختیار لوگوں کو کیوں نہیں سمجھ آ رہا کہ اس قوم نے آپ کی حماقتوں اور غلط فیصلوں کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور ملک آپ کے اختیارات ‘مفادات اور اقتدار حاصل کرنے کی خواہش سے زیادہ قیمتی ہے۔