فیس بک کی پوسٹیں دیکھتے دیکھتے ایک پوسٹ پر نظر پڑی۔ کسی نے کاروانِ علم فائونڈیشن کی مدد کے حوالے سے لکھا تھا اور کچھ اعداد وشمار بھی دئیے ۔ سچی بات ہے پڑھ کر جھٹکا سا لگا۔ سوچنے لگا کہ اس سال کاروان علم فائونڈیشن کو نظرانداز کیسے کر بیٹھا؟پچھلے کئی برسوں سے رمضان مبارک سے تھوڑا پہلے اور اس ماہ مقدس کے دوران مختلف اچھی شہرت رکھنے والے چیریٹی اداروں پر لکھا کرتا تھا۔ مقصد یہی ہوتا کہ ان کے اچھے کام کا قارئین کو پتہ چلے اور وہ اگر چاہیں تو اپنا حصہ ڈال کر نیکی کے سلسلے کو آگے بڑھا سکیں۔ پچھلے سال اور اس بار رمضان میں سیاست اتنی گرم ہوچکی ہے کہ توجہ اور ذہن دوسری طرف جا ہی نہیںپایا۔ پچھلے سال رمضان میں تحریک عدم اعتماد آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو جانا پڑا۔ اس کے بعد درجہ حرارت اتنا تیز ہوا کہ ہر کوئی اس کی حدت میں پگھل گیا۔ رمضان کے جانے کے بعد احساس ہوا تھاکہ اس بار کچھ بھی نہیں لکھ سکے۔رواں سال بھی کم وبیش یہی حال ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے حوالے سے شورشرابا چل رہا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ، حکومت کی جانب سے اسے ماننے سے انکار، بحث مباحثے ،نت نئے سیاسی حربے ، چالیں۔ ان سب میں ہم میڈیا والے بھی بہہ گئے اور ہر جگہ سیاست ہی غالب ہے۔ رمضان میں جو روایتی دھیماپن اور باہر کے بجائے داخلی سطح پر توجہ دینے اور تزکیہ نفس کی جدوجہد کی جاتی ہے، اس میں کسی حد تک کوتاہی ہو رہی ہے۔ خیر اب سوچا ہے کہ دو تین ایسے اچھے اداروں پر لکھا جائے ۔ کاروان ِعلم فائونڈیشن کی بات ہو رہی تھی۔ یہ نادارلائق طلبہ کی امداد کے لئے کام کرنے والا ایک بہت اچھا اور قابل تعریف ادارہ ہے۔ اردو ڈائجسٹ کے بانی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے اس کی بنیاد رکھی اور ان کی ٹیم نے واقعتاً کمال کر دیا۔ بہت اچھا اور قابل تعریف کام کیا۔اس ادارے نے ہزاروں طلبہ کی زندگی بدل ڈالی۔ ڈاکٹر اعجاز حسن ہمارے استادوں میں سے ہیں۔ میری صحافت کا آغاز اردو ڈائجسٹ سے ہوا ، تین چار سال وہاں گزرے، پھراخبارات میں چلا گیا، مگر ڈاکٹر صاحب سے رابطہ قائم رہا۔ کاروان علم فائونڈیشن کا پورا پراسیس ہمارے سامنے چلتا رہا، بتدریج یہ ادارہ بنا اور پھر استقامت اور مضبوطی کے ساتھ اس نے اپنا کام سرانجام دیا۔ اس کے ڈائریکٹر خالد ارشاد صوفی ہمارے دوست ہیں۔ خالد ارشاد نے بھی سچی بات ہے اپنی پوری زندگی اس ادارے کے لئے وقف کر دی۔میں 2002 میں جنگ اور پھر دو سال بعد روزنامہ ایکسپریس جوائن کر لی۔ اس دوران چند ماہ کے لئے اردو ڈائجسٹ میں ایک پراجیکٹ پر جز وقتی کام کیا۔ خالد ارشاد صوفی تب ایک نوجوان صحافی تھے۔، دن اخبار میں وہ کام کر چکے تھے، دن کے میگزین میں انہوں نے خاصا کام کیا۔ اردو ڈائجسٹ وہ فیچر رائٹر کے طور پر آئے تھے اور ڈاکٹر اعجاز قریشی نے انہیں فیچر کے لئے خوب بھگایا۔ ٹرانسپورٹ اور ٹریفک حادثات پر ایک فیچر خالد ارشاد کر رہے تھے، بلامبالغہ ڈاکٹر اعجاز قریشی نے پانچ سات بار ری رائیٹ کرایا، مختلف اسائنمنٹ لگاتے ، خالد بھی جن کی طرح جتا رہتا۔ نتیجے میں ایک کمال فیچر اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا۔ اس فیچر پر خالد ارشاد صوفی کو اے پی این ایس کا بہترین فیچر رائٹرکا ایوارڈ ملا، یہ شائد 2002-03کا سال تھا۔ اغلباًاردو ڈائجسٹ کے طویل سفر کا یہ شائد واحد اے پی این ایس ایوارڈ یافتہ فیچرہے۔ انہی دنوں اردو ڈائجسٹ کا چکر لگا اور ڈاکٹر اعجاز قریشی صاحب سے ان کی چائے کی مخصوص محفل میں ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے چائے کے ساتھ ازراہ تلطف اپنے مخصوص شوگرفری بسکٹ بھی کھلائے۔ڈاکٹر صاحب بڑے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ان کا ایک خاص انداز تھا، اردو ڈائجسٹ میں کام کرنے والے اس سے واقف رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب ایک خاص انداز میں اپنی آرام کرسی کی پشت سے سر ٹکاتے، اسے جھلاتے ، آنکھیں موند کر چند لمحوں تک مسکراتے رہتے اور پھر اچانک سیدھے ہو کر بیٹھتے اور اپنے خیال کو بیان کرتے اور دادطلب نظروں سے دیکھتے۔ اس دن ڈاکٹر اعجاز قریشی نے کاروان علم فائونڈیشن کے پراجیکٹ کی تفصیل بتائی ۔ پرجوش انداز میں انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک بہت محنتی، زبردست نوجوان کو اس پر لگا دیا ہے، وہی خالد ارشاد جس کے فیچر کو ایوارڈ ملا تھا۔ اگلے کئی برس ڈاکٹر اعجاز قریشی ، خالد ارشاد اور ان کی ٹیم اس پراجیکٹ پر لگی رہی۔ اس ضمن میں مختلف تجربات ہوئے، پہلے ملک بھر کے بورڈز میں پوزیشن لینے والے طلبہ وطالبات کو جمع کیا گیا۔ پھر کئی اور پراجیکٹ بھی چلتے رہے۔ آخر میں کاروان علم فائونڈیشن کی صورت میں مستحق مگر لائق طلبہ کی مدد کے لئے ادارہ بنایا گیا۔بیس سال ہوگئے ، یہ ادارہ بھرپور اطریقے سے اپنا کام کر رہا ہے۔ ہزاروں طلبہ کی اس نے زندگی تبدیل کی۔ خالد ارشاد صوفی نے اپنے صحافی کیرئر کو ترک کرتے ہوئے اپنی زندگی اس بڑے سماجی کام میں کھپا دی۔ آج اسی نوجوان خالد ارشاد کے بالوں اور ڈاڑھی میں چاندی اتر آئی ہے، اس کی آنکھوں میں مگر سکون اور چہرے پر طمانیت جھلکتی ہے۔ جب بھی ملاقات ہو، خالد ارشاد اپنی فائونڈیشن کے نئے منصوبوں کے بارے میں بات کرتا رہتا ، ان طلبہ کے بارے میں جو آج تعلیم مکمل کر کے عملی زندگی میں جا چکے ہیں، وہ جو ابھی پڑھ رہے ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن کے اپنے ریکارڈ کے مطابق سکالرشپ لینے والوں میں دو ہزار کے لگ بھگ ڈاکٹر اور کم وبیش اتنے انجینئرز ہیں۔کئی ہزار کامرس، بزنس، فارمیسی اور ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے ہیں۔ اگر کاروان علم فائونڈیشن ان کی تعلیم کا خرچہ نہ اٹھاتی ، انہیں روزمرہ اخراجات کے لئے وظیفہ نہ دیتی تو یہ طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر پاتے۔ کاروان علم فائونڈیشن سے ڈیڈھ ہزار یتیم طلبہ جبکہ پانچ سو کے قریب معذور یا جزوی معذور سٹوڈنٹس کو سکالرشپس ملی ہیں۔ان کا طریقہ کار بڑا شفاف ہے۔ یہ ڈائریکٹ تعلیمی ادارے کو فیس ادا کرتے ہیں تاکہ گڑبڑ کا امکان صفر ہوجائے ۔ایس ایم ظفر فائونڈیشن کے سرپرست ہیں، مجیب الرحمن شامی چیئرمین، ندیم شفیق جنرل سیکرٹری ، ایوب صابر اظہار سیکرٹری فنانس اوردیگر اراکین کے ساتھ الطاف حسن قریشی بھی رکن مجلس عامہ ہیں۔ کالم کے شروع میں کاروان علم فائونڈیشن کے جس اشتہار کا ذکر کیا۔ اس میں بتایا گیا کہ فائونڈیشن کے پاس پانچ سو کے قریب طلبہ کی درخواستیں موجود ہیں، جو لائق ہیں مگر آگے پڑھنے کے اخراجات موجود نہیں، ان کی مدد کے لئے پانچ کروڑ کے لگ بھگ عطیات کی ضرورت ہے۔ کاروان علم فائونڈیشن کی کوشش ہے کہ جس قدر ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ طلبہ وطالبات کو سکالرشپ دے سکیں۔ ظاہر ہے یہ چند ڈونر کی مدد سے نہیں ہوسکتا، اس کے لئے بہت سے لوگوں کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ کاروان علم فائونڈیشن ایسا ادارہ ہے جس کا ہاتھ پکڑنا چاہیے ۔ اس کے پراجیکٹس کی تفصیل کے لئے ویب سائٹ www.kif.com.pk کا وزٹ کریں، مزید معلومات یا عطیات وغیرہ کے چیک کے لئے کاروان کے دفتر مکان نمبر 604بلاک سی، فیصل ٹائون ، لاہور جایا جا سکتا ہے۔ (اس سلسلے کو ان شااللہ آگے بڑھائوں گا۔ عالم بی بی ٹرسٹ کی حیران کن کہانی بھی شیئر ہوگی، غزالی ٹرسٹ سکولز، الخدمت،پی او بی جیسے اداروں کا تعارف بھی ، ان شااللہ)