ایک کمیشن بٹھائیے جو جائزہ لے کہ معاشی شرح نموکا تناسب محض ایک سال میں چھ فیصد سے منفی دو کیسے ہو گیا ۔حکومت کے اعدادو شمار کچھ بھی ہوں ،غیر جانبدار معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ شرح نمو کی اصل فگر منفی دو ہی ہے۔آخر کیا وجوہات رہیں کہ کورونا کے بعد بحال ہو جانے والی معیشت پھر سے ڈوب گئی اور ایسی ڈوبی کہ بحالی کے امکانات نظر نہیں آتے۔زراعت،صنعت اور خدمات کے شعبے میں بھی اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ صنعت تو مکمل تباہ ہو گئی ،پانچ فیصد گروتھ کا ہدف تھا مگر گروتھ منفی تین تک گر گئی۔ایک کمیشن تو بٹھائیے جو جائزہ لے کہ یہ سب تباہی لانے کے لیے کس کو کتنی محنت کرنا پڑی۔ ایک کمیشن بٹھائیے جو بتائے کہ پچھلے ایک سال میں حکومت نے ریکارڈ قرضہ لے کر کہاں خرچ کیا ۔پی ڈی ایم کی حکومت نے محض ایک سال کے عرصے میں 14 ہزار900 ارب کا ریکارڈ قرضہ لیا جو قیام پاکستان سے اب تک ایک سال میں لیا گیا سب سے بڑا قرضہ ہے۔اپریل 2022 تک ملک پہ مجموعی قرضہ 43 ہزار 705 ارب کا تھا۔ اپریل2023 میں یہ قرضہ بڑھ کر 58ہزار599ارب ہو گیا ۔یعنی ایک سال میں مجموعی ملکی قرض کا 34 فیصد قرض لیا گیا۔ایک کمیشن بٹھائیے جو جائزہ لے کہ ملکی قرضے میں 15 ہزار ارب روپے کے اضافے کا سہرا کس کے سر سجانا ہے۔ ایک کمیشن بٹھائیے جو زر مبادلہ کے ذخائر کے سولہ ارب ڈالر سے چار ارب ڈالر تک سمٹ جانے کی وجوہات تلاش کرے۔جو جائزہ لے کہ اگلے ایک سال میں 28ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیسے ہو گی۔ایک کمیشن جو یہ بھی جائزہ لے کہ ہر بار ہماری مالی حالت پہ ترس کھا کر جھولی میں سکے اچھالنے والے دوست ممالک نے اس بارآنکھیں کیوں پھیر لی ہیں۔ ایک کمیشن بٹھائیے جو بتائے کہ پچھلے مالی سال میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ سطح پر کیسے پہنچی۔ خود اسی حکومت نے مہنگائی کی شرح کا ہدف 11.5 فیصد مقرر کیا تھا مگر یہ 38فیصد کی ریکارڈ سطح پر کیسے پہنچی۔ پاکستان نے کئی جنگوں کا سامنا کیا، گلوبل ریسیشن اور عالمی وبائیں بھی بھگتیں مگر مہنگائی کی شرح کبھی اس سطح پر نہیں پہنچی۔کوئی جائزہ لے کر مشورہ تو دے کہ صنعتیں بند ہو جانے کے بعد بیروزگاری کا سامنا کرنے والی قوم 38فیصد مہنگائی کا سامنا کیسے کرے۔ ایک کمیشن بٹھائیے جو اس سوال کا جواب تلاش کرے کہ گذشتہ برس کمزور مالی حالت کے باعث ٹیکس ادا نہ کر سکنے والی قو م اس بار دوگنا ٹیکس کیسے دے گی۔گذشتہ مالی سال کے لیے ٹیکس کولیکشن کا ہدف 74 سو ارب رکھا گیا مگر گیارہ ماہ میں ہم 56 سو ارب روپے تک ہی پہنچ پائے۔اس بار یہ قوم 92سو ارب روپے ٹیکس کیسے دے گی۔ٹیکس دینے کے لیے آمدن ہونی چاہیے،صنعت کا شعبہ منفی گروتھ دکھا رہا ہے،صاف ظاہر ہے کہ صنعتیں بند ہوئی ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیروزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ بیروزگاروں سے ٹیکس مانگا جا رہا ہے۔پوری دنیا میں بیروزگاروں کی حکومت مالی مدد کرتی ہے اور پھر نوکری پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے،ہمارے ہاں ٹیکس پہ زور ہے لوگوں کی آمدن بڑھانے پہ نہیں ۔ آصف زرداری کا جملہ تو اچھا تھا کہ پہلے لوگوں کو امیر کرو پھر ان سے ٹیکس لو۔مگر یہ خواب حقیقت میں بدلے گا کیسے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے بھی ایک کمیشن بٹھائیے ۔ہمارے ہاں کمیشن بڑے شوق سے بٹھائے جاتے ہیں ،ایک مسئلے کے لیے دس دس کمیشن بن جاتے ہیں تو پھر ایک کمیشن معیشت کی تباہی کی وجوہات جاننے کے لیے بٹھا دیجیے۔ ایک کمیشن بٹھائیے جو روپے کی پتلی حالت پہ رحم کھانے کے لیے تجاویز تیار کرے۔اسحاق ڈار جعلی حربوں کے استعمال سے ہی صحیح ،ڈالر کو قابو کر کے عوام کو کامیابی سے بیوقوف بنا لیا کرتے تھے مگر اس بار تو ان سے یہ بھی نہیں ہو پارہا ۔ ڈالر کو کنٹرول کرنے کے چکر میں ایل سیز بند کردیں ، انڈسٹری تباہ کر دی،برآمدات کا ستیا ناس ہو گیا،ڈالر پھر بھی قابو نہیں آیا۔ روپے کی بے قدری تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ انٹر بینک کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ ایک متوازی نظام کے طور پر وجود میں آ چکی ہے۔چند دن پہلے اچانک شور اٹھا کہ ڈالر 23 روپے تک گر گیا ہے، وزیر اطلاعات نے تو ایک پریس کانفرنس ہی کر دی۔یہ بھی بتایا کہ بہتر معاشی پالیسیوں کے باعث روپے کی قدر بہتر ہوئی ہے۔مگر وہ کیا معاشی پالیسیاں تھیں جن کے باعث یہ معرکہ سر انجام دیا گیا،اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے کہ روپیہ جمپ مار کے دوبارہ پہاڑ پہ چڑھ بیٹھا۔غیر یقینی کی صورتحال یہ ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا جب دن نکلے گا تو روپیہ دس روپے اوپر جائے گا یا نیچے۔کون ہے جو ایسی بے یقینی کی کیفیت میں کوئی ٹریڈ کرے اور اپنے سودے طے کرے گا۔ اسحاق ڈارنے مفتاح اسمعیل کو کہنی مار کے گرایا اور اپنی جگہ بنائی۔اپنا کیس انہوں نے ایک ہی نکتے پہ لڑا۔فرمایا مفتاح کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر 230 پہ گیا ،میرے آتے ہی یہ 180 پہ واپس آ جائے گا۔ 180 پہ تو کیا آنا تھا یہ 280 پہ بھی نہ ٹھہر سکا۔اب ایک کمیشن بٹھائیے جو جائزہ لے کہ ڈار صاحب نے ڈالر کے ساتھ کیا کیا۔ پاکستان کی معیشت پاکستان کے سکیورٹی کے ساتھ جڑی ہے۔خراب معاشی حالات پاکستان کی سیکیورٹی کو خدشات کا شکار کر سکتے ہیں ۔ ایسے میں معیشت کی تباہی کے ذمہ داروں کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن کے قیام کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔اگر اس کے لیے کمیشن نہیں بٹھایا جاتا تو پھر ایک اور کمیشن بٹھائیے جو بتائے کہ کمیشن کیوں نہیں بٹھایا جا رہا۔