قاضی حسین احمد مرحوم ان چند ایک ارواح صالحہ میں سے تھے جن کے چہرے کو دیکھنے سے ایک قلبی و روحانی تسکین حاصل ہوا کرتی تھی۔ میں ان کی مسکراہٹ کا قتیل تھا۔ جتنی دیر میں ان کی محفل میں رہتا، میرا جی چاہتا کہ وہ مسکراتے رہیں۔ تبسم کا لفظ اپنے اصل روپ میں ان کی مسکراہٹ کے لئے ہی مناسب لگتا تھا۔ ایک دردِ دل رکھنے والے اور اُمتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کے نقیب۔ جب کبھی بھی ان سے ملاقات ہوئی، کوئی ایک المیہ، کوئی نیا دُکھ انہوں نے ضرور بیان کیا۔ ایک تفصیلی ملاقات میں، جب میں نے خیبرپختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کی پانچ سالہ حکومت کی نفاذِ اسلام کے حوالے سے ناقص بلکہ صفر کارکردگی کا تذکرہ کیا تو قاضی صاحب کا ہنستا مسکراتا چہرہ غم و اندوہ کی تصویر بن گیا۔ کہنے لگے جب 2002ء میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی تو میں نے مولانا فضل الرحمن صاحب سے ملاقات کی اور میںنے انہیں کہا کہ اب چونکہ ایک صوبے میں ہمیں حکومت مل گئی ہے تو اگر ہم ممکن حد تک یہاں اسلامی قوانین کا نفاذ کر دیں، تو ہم یہ ثابت کر سکیں گے کہ اسلامی قوانین آج کے دور میں بھی نافذالعمل ہیں۔ ہماری یہ کامیابی لوگوں کے دلوں میں ہمارے لئے جگہ بنائے گی اور ہم آئندہ انتخابات میں بھی بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے۔ قاضی صاحب نے بتایا کہ مولانا نے اس کے جواب میں ایک ایسی بات کہی، کہ میں ان کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔ مولانا نے ’’فرمایا ‘‘کہ جمعیت العلمائے اسلام اپنی پیش رو جماعت، ’’جمعیت العلمائے ہند‘‘ کی طرح کبھی بھی نفاذِ اسلام کے مقصد کے لئے کام نہیں کرتی۔ یہ ایک عمومی سیاسی جماعت ہے، جیسے باقی تمام سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں اور وہ حالات و واقعات اور اسباب و علل کو دیکھ کر سیاست کرتی ہیں۔ برصغیر کی عملی سیاست کے حوالے سے مولانا کی یہ بات درست اور تاریخی حقائق لئے ہوئے ہے۔ یہی مروّجہ سیاست ہی تو ہے جو 1920ء کے پہلے عمومی انتخابات کی کوکھ سے برآمد ہوئی اور اس ایک صدی میں اس نے لفظ ’’سیاست‘‘ کو ایک منفی استعارہ بنا کر رکھ دیا۔ آپ نے بار ہا لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ ’’میرے ساتھ سیاست مت کرو‘‘، یعنی کھری کھری بات کرو، سچ بولو۔ یہ سیاسی دائو پیچ اور مطلب پرستی ہی تو تھی کہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے اکثر چائے خانوں میں یہ بورڈ آویزاں ہوتے تھے کہ ’’یہاں چرس پینا اور سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔ جمعیت العلمائے ہند ایک سیاسی پارٹی تھی، جس کی بنیاد چند علمائے کرام نے 19 نومبر 1919ء کو رکھی،جن میں کفایت اللہ دہلوی، ثناء اللہ امرتسری، ابراہیم میر سیالکوٹی اور عبدالباری فرنگی محلی شامل تھے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ جمعیت العلمائے ہند کی بنیاد مولانا محمودالحسن اور مولانا حسین احمد مدنی نے رکھی تھی، کیونکہ یہ دونوں حضرات اس وقت مالٹا کی جیل میں قید تھے۔ لیکن جمعیت العلمائے ہند کو قائم کرنے والے تمام علماء چونکہ دیوبند مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے، اس لئے آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی سیاست کاری سے اس پورے مکتبۂ فکر کے علماء اور پیروکاروں کو ساتھ ملالیا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج مولانا فضل الرحمن نے تمام دیوبندی فکر رکھنے والوں کوساتھ ملابنا رکھا ہے۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستان میں طالبان سے ہمدردی رکھنے والے افراد پر کریک ڈائون کا آغاز کیا تو ان میں اکثریت دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی تھی کیونکہ افغانستان کے طالبان انہی مدرسوں سے فارغ التحصیل ہو کر نکلے ہوئے تھے۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن کی سیاسی ’’بصیرت‘‘ اور ’’بصارت‘‘ نے بھانپ لیا کہ اگر میں نے دیوبند مکتبۂ فکر کے ماننے والے علماء و طلباء میں یہ ’’خوف‘‘ بیچ دیا کہ اگر تم ’’میری‘‘ یعنی ’’جمعیت العلمائے اسلام‘‘ کی چھتری تلے جمع نہ ہوئے تو پھر ایک ایک کر کے مارے جائو گے، تو پھر میری سیاست کامیاب ہو سکتی ہے۔ مولانا کی یہ دھمکی ایسی کارگر ثابت ہوئی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پورا دیوبندی مکتبۂ فکر ان کی مٹھی میں آ گیا۔ حالت یہ ہے کہ آپ آج ان کی پگڑی کے بَل پر بھی انگلی اٹھائیں تو ان کے ’’دیوانے و فرزانے‘‘ آپ کی ایسی کردار کشی کریں گے، آپ کو ایسی باتیں سنائیں گے اور آپ کو اس قدر صفائی اور ڈھٹائی سے قادیانی اور یہودی ایجنٹ بنا دیں گے کہ آپ اپنی عزت سمیٹ کر خاموش ہونے میں ہی عافیت سمجھیں گے۔ مولانا کی دھمکیاں اپنے حامیوں اور مخالفین دونوں کے لئے کامیاب ثابت ہوتی رہی ہیں۔ حامیوں کو کچلے جانے کا خوف دلا کر ساتھ ملایا گیا اور مخالفین کو بدنامی اور کافر کہلائے جانے کا خوف دلا کر چُپ کرایا گیا۔ پاکستان میں کوئی ایک سیاست دان بھی ایسا نہیں ہے جس کے پاس ایسی دو دھاری تلوار موجود ہو۔ پاکستان میں جمعیت العلمائے اسلام کی سیاست اپنی پیش رو جماعت جمعیت العلمائے ہند سے بالکل مختلف نہیں رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے وہ کانگریس کے ساتھ مل کر سیاست کرتی تھی اور آج بھی بھارت میں سیکولر سیاست کر رہی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے انہوں نے نہرو سے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ حکومت ملنے پر مسلم پرسنل لاء کا تحفظ کیا جائے گا۔ اسی طرح پاکستان میں جمعیت العلمائے اسلام نے بھی ایوب کے مارشل لاء میں آمریت کا ساتھ دے کر نیشنل عوامی پارٹی کی قوم پرستی کے ساتھ مل کر، بے نظیر اور نواز شریف کی مفاد پرستانہ سیاست کے پہلو بہ پہلو چل کر اور پرویز مشرف کی سیکولر، لبرل حکومت کی ہمرکابی، اتنی آسانی سے اختیار کر لی کہ ایسی سیاست تو مغربی جمہوریت والوں کو بھی نہیں آتی۔ علامہ اقبالؒ نے اسی سیاست پر کہا تھا: ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد مولانا کی اسی سیاست سے پاکستان کے مدرسے اور مکتب پُرسکون ہیں اور ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ لیکن مدارس کی اس حفاظت کے بدلے میں اسلام اور تصورِ نفاذِ اسلام جو قیمت ادا کر رہا ہے، وہ بہت خوفناک ہے۔ ہماری عملی زندگی میں ایک قوت نافذہ کی حیثیت سے اسلام ہماری سیاست سے نکل چکا ہے اور اسلام کو دیس نکالا دینے میں ان علماء کی ایسی ’’عملی‘‘ سیاست کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس سیاست کے اس قدر شاندار کھلاڑی ہیں کہ ان کا ذہن ہر دَم نئی نئی اختراعات پیدا کرتا رہتا ہے۔ ان کی پیش رو جمعیت اور خود ان کی پارٹی خالص علماء کی ایک جماعت رہی ہے اور یہ اپنی اسی قوت کی بنیاد پر ہر سیکولر، لبرل، کیمونسٹ، قوم پرست پارٹی سے اپنے لئے مفادات حاصل کیا کرتی تھی۔ لیکن مولانا نے اب اس تصور کو وسعت دے دی ہے، انہوں نے سوچا کہ ہم جن طاقتوں سے معاہدہ کر کے مراعات لیتے ہیں،کیوں نہ ان کو ہی اپنی پارٹی میں شامل کر لیا جائے۔ اس کا آغاز انہوں نے بلوچستان سے کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی، میر ظفر اللہ زہری، میر امان اللہ نوتیزی اور سردار ظفر اللہ خان گچکی سمیت لاتعداد قبائلی و سیاسی رہنما جمعیت کے قافلے میں شامل ہو گئے ہیں۔ مولانا اب اقتدار کی بساط پر مکمل قبضہ جمانے میں بھی خودکفیل ہونا چاہتے ہیں۔ اب جمعیت العلمائے اسلام میں ہر طرح کی محفل کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ مجلسِ ذکر و فکر بھی اور محفلِ رندانہ بھی۔ معشوقِ ما بہ شیوۂ ہرکس موافق است باما شراب خورد و بہ زاہد نماز کرد ’’میرے معشوق کو ہر طرح کی محفل راس آ جاتی ہے، وہ میرے ساتھ بیٹھ کر شراب بھی پی لیتا ہے اور زاہد کے ساتھ نماز بھی پڑھ لیتا ہے‘‘۔ شورش کاشمیری بڑے بلا کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کی تمام زندگی اسلام کے دفاع میں گزری۔ 1970ء کے الیکشنوں میں جب انہوں نے جمعیت العلمائے اسلام کو کیمونسٹ، لادین اور ملحدوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرتے دیکھا تو سخت پریشان تھے، لاتعداد نظمیں اور ہجو لکھیں، ایک شعر تو غضب کاتھا: کل قاسم العلوم میں بٹتی رہی شراب رندانِ شہر مفت میں بدنام ہو گئے