جنرل جارج پیٹن نے کہا تھا ’’میری رہنمائی کرو یا میری پیروی کرو ایسا نہیں کر سکتے تو میرے راستے سے ہٹ جائو‘‘۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہرسیاستدان مسائل کا رونا روتا ہے مسائل گنوانتا ہے‘ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ مسائل کی دلدل سے نکالنے والا الٰہ دین کا چراغ اس کے پاس کے ہے ۔عوام تو عوام یہاں خواص بھی حقائق کے بجائے ’’ہوا‘‘ دیکھ کر رائے بناتے ہیں۔ فیصلہ ساز فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں خواہش اور ضرورت کے مطابق کرتے ہیں ۔ہر کسی کا اپنا سچ ہے دوسرے کا سچ سننے کو کوئی تیار نہیں۔ حد تو یہ سچ بھی وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ 12اکتوبر کو جنرل مشرف ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ کرے تو وزیر اعظم کے حلقہ کے عوام ڈھول کی تھاپ پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔دانشور اور سیاسی جماعتیں یوم نجات مناتی ہیں۔ عدالتیں غیر جمہوری اقدام پر وقت کی ضرورت کی مہر لگا کر آمر کو آئین میں ترامیم کی اجازت کے لئے وقت دے دیتی ہیں اور جب وقت بدلتا ہے تو اسی اقدام کو آئین سے انحراف اور غداری قرار دے کر غداری کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ 5 فروری کو جب جنرل مشرف دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو جنرل مشرف کا جبر برداشت کرنے والے مولانا عبدالعزیر تو اپنے بھائی اور عزیروں کا خون ہی معاف کرکے قاتل کے لئے دعا مغفرت کرواتے ہیں جبکہ جنرل مشرف کے 12اکتوبر کے اقدام کی حمایت کرنے والی جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق ان کی وفات پر ایوان میں فاتحہ خوانی کروانے سے انکار کرتے ہیں۔ جب مشرف دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے غیر جمہوری اقدامات کی فہرست قوم کو رٹوائی جاتی ہے۔ مشرف کو آئین شکن غدار، جامع حفصہ کے معصوموںاور اکبر بگتی کا قاتل ثابت کیاجاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جنرل مشرف کے خلاف آئین شکنی کا جو مقدمہ چلا اور جس میں ان کی غیر حاضری میں سزا ہوئی وہ کم از کم اکیلے تو مجرم نہ تھے۔ 12اکتوبر کو نواز شریف وزیر اعظم ہائوس سے گرفتارجب کئے گئے اس وقت جنرل مشرف پاکستان میں ہی موجود نہ تھے۔ سری لنکا سے کراچی آنے والے جس طیارے میں مشرف سوار تھے اس کو شام چھ بجے کراچی لینڈ کرنا تھا جبکہ اس وقت کے ڈی جی ملٹری آپریشن 5بجے حکومت کے خلاف آپریشن کا آغاز کر چکے تھے۔ جنرل عثمانی جنرل مشرف کے طیارے کو کراچی کے بجائے نواب شاہ اتارنے کے احکامات کے باوجود کراچی ایئر پورٹ کا کنٹرول سنبھال چکے تھے مگر مقدمہ صرف مشرف کے خلاف ہے اور عدالت سزا بھی مشرف کو ہی سناتی ہے ۔کوہلو میں آرمی چیف ایک تقریب میں موجود ہوتے ہیں تو میزائل حملہ ہوتا ہے ادارہ آپریشن کا فیصلہ کرتا اور آپریشن میں بگتی کی جان جاتی ہے مگر قاتل صرف مشرف!! اسلام آباد میں طالبات ہفتوں تک لائبریری پر قبضہ کئے رکھتی ہیں تو ٹی وی پر دانشور مشرف کو بزدل اور ریاست کو اپاہج ہونے کے طعنے دیتے ہیں جب حکومت آپریشن کا فیصلہ کرتی ہے تو قاتل صرف مشرف !! آج ہمارے دانشور یہ فلسفہ تو جھاڑتے ہیں کہ مشرف کے امریکہ کے اتحادی بننے کے غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی شروع ہوئی مگر جب مشرف نے امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت کسی نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کے پاس دوسرا راستہ کیا ہے؟ جب بھارت نے پاکستان کے انکار کی صورت میں بھارتی زمین استعمال کرنے کی پیشکش کی تو اس وقت کسی دانشور نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کے پاس امریکہ اور بھارت کے مقابلہ کے لئے کیا آپشنز ہیں۔ امریکہ پاکستان کو غار کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دیتا ہے پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ پیدا ہوتا کوئی مسئلہ کا حل نہیں بتاتا کسی کو راستے کا علم نہیں مگر جب مشرف فیصلہ کرتا ہے تو گمراہی کے دعویدار سب کے سب۔ آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں گھنٹوں بولنے اور تقریریں کرنے والوں کی تو کمی نہیں مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ پاکستان کو حقیقی جمہوریت کبھی نصیب ہی نہیں ہوئی جمہوریت کے دعویدار سیاستدانوں کے خمیر میں آمریت ہے۔ جمہوریت کی عالمی درجہ بندی کرنے والے ادارے نے 167ممالک کو جمہوریت کے حالات کے مطابق، مکمل جمہوریت ‘ناقص جمہوریت ہائبرڈ رجیم اور آمرانہ طرز حکومت چار گروپس میں تقسیم کیا ہے۔ جمہوری درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 105واں ہے جبکہ پاکستان ہائبرڈ طرز رجیم والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ ہائبرڈ رجیم میں وہ ممالک شامل ہیں جہاں انتخابات کا انعقاد شفاف طریقے سے نہیں ہوتا، جہاں حزب اختلاف کی جماعتوں پر دبائو ڈالا جاتا ہے جعلی مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ عدلیہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہوتی ،کرپشن عام ہوتی ہے۔ میڈیا وہی دکھاتا ہے جو حکومت دکھانا چاہتی ہے۔ ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حقیقی جمہوریت تو دور کی بات کبھی ناقص جمہوریت بھی نہیں آ سکی۔اگر انتخابات ہی جمہوریت ہوتے تو جنوبی افریقہ میں 1910ء سے انتخابات ہو رہے تھے مگر جنوبی افریقہ کو جمہوری ملک کا درجہ 1994ء میں ملا۔ پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں آمر جمہوری اور جمہوری حکومتوں میں آمر حکمران رہے ہیں۔دانشور اپنے ذھن سے سوچتے ہیں نا ہی ادارے کسی نظام کے تحت چلتے ہیں۔ جب کوئی تند سیدھی ہی نہیں تو ایک مشرف پرالزام کیونکر دھرا جا سکتا ہے۔ ہیری ایس ٹرمین نے کہا تھا جہاں قیادت نہیں ہوتی معاشرہ ساکت ہو جاتا ہے ساکت تو شفاف پانی بھی رہے تو بدبو چھوڑنا شروع کر دیتا ہے یہاں تو معاشرہ ساکت ہی نہیں بے حس بھی ہے۔اگر معاشرہ ساکت اور بے حس ہے تو اس کے ذمہ دار عوام نہیں لیڈرہیں۔ معاشرہ تب بدلے گا جب قیادت خود کو بدلے گی۔ روزالین کارٹر نے کہا تھا لیڈر لوگوں کو وہیں لے کر جاتے ہیں جہاں لوگ جانا چاہتے ہیں مگر عظیم لیڈر لوگوں کو وہاں لے کر جاتا ہے جہاں لوگ جانا نہیں چاہتے مگر ان کو وہاں جاتا چاہئے۔ جس دن پاکستانیوں کو عظیم لیڈر مل گیا اس دن معاشرے کا جمود ٹوٹے گا ۔ ۔دانشور کسی کی ہدائت کے بجائے اپنی دانش کے مطابق بولیں اور لکھیں گے اس دن شاید اس ملک میں کوئی ’’قانون شکن ملے گا نا کوئی غدار‘‘ اُس دن کا انتظار کیجیے۔