پاک۔ ایران گیس منصوبہ امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا شکار ہے۔ اس پائپ لائن کا مقصد قدرتی گیس کا قابل اعتماد اور کم خرچ ذریعہ فراہم کرکے پاکستان کے توانائی بحران کو حل کرنا تھا۔ ایران کے پاس قدرتی گیس پاکستان کے توانائی کے بحران کو حل کرنے میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں ۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس منصوبے میں سالانہ 22 ارب مکعب میٹر (بی سی ایم) گیس کی گنجائش ہوگی، جس سے پاکستان کو روزانہ تقریباً 750 ملین مکعب فٹ (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس ملے گی۔ اس پائپ لائن پر تقریباً 7 ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ تھا جس میں ایران کی 500 ملین ڈالر کی فنانسنگ شامل تھی۔ قدرتی گیس کی ترسیل سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور مہنگے درآمدی تیل پر انحصار کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ہیں۔خیال رہے کہ29مئی2010کو پاک۔ایران گیس لائن منصوبے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت چار برس میں منصوبہ مکمل ہونا تھا اور 25برس تک ایران سے پاکستان کو گیس فراہم کی جانے تھی ، تاہم صدر زرداری کو تین ہفتے بعد ہی امریکی سفارت کاررچرڈہالبروک نے پابندیوں سے متعلق خبردار کردیا تھا۔ سنہ 2010 میں اقوام متحدہ اور امریکہ نے ایران کے توانائی کے شعبے میں کاروبار کرنے والی کمپنیوں پر پابندیاں، احتساب اور تقسیم کا قانون منظور کیا جس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو گیا ، کیونکہ ان پربندیاں عائد کیے جانے کا خطرہ تھا۔ایک اور رکاوٹ سکیورٹی خدشات بنے۔ اس پائپ لائن کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گزرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ، جو دہشت گرد اور انتہا پسندوں کے تشدد اور دہشت گرد حملوں کا شکارہے۔اس کے علاوہ پاکستان اور ایران کے درمیان سیاسی تناؤ بھی رہا ہے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ متاثر ہوا ۔ سنہ 2012 میں پاکستان نے مالی مشکلات اور امریکی دبائو کی وجہ سے پائپ لائن کی تعمیر روک دی تھی جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو ئے ۔سنہ 2021 میں پاکستان اور ایران نے پائپ لائن کو چین تک توسیع دینے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس منصوبے میں پہلے بھارت بھی شامل تھا لیکن بعد ازاں وہ معاہدے سے الگ ہوگیا لیکن چیلنجز نے پاکستان کے لیے پائپ لائن کی تکمیل کو مشکل بنا دیا ہے اور اب ملک کو گیس معاہدے کے تحت2024تک عمل درآمد نہ کرنے پر ایران کی جانب سے 18 ارب ڈالر کے جرمانے کا خطرہ ہے۔ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے پاکستان امریکہ سے گیس لائن مکمل کرنے کی اجازت مانگ رہا ہے، امریکہ ۔ افغان جنگ میں پاکستان اس منصوبے کو مکمل کرنے کا موقع تھا۔ نیز ایران80ارب ڈالر کی اشیا ء دیگر ممالک کو برآمد کررہا ہے ، اس میں ایران اور چین بھی شامل ہے ، خوراک ، ادویہ اور بجلی پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی104میگا واٹ سستی بجلی خرید رہا ہے جب کہ100میگا واٹ بجلی کے حصول کے لئے مذاکرات چل رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان چونکہ آئی ایم ایف سے قرض لیتاہے، اِس لیے ایران سے بھی سستا تیل نہیں لے سکتے جبکہ بھارت، چین اور جاپان آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیتے ہیں جبکہ پاکستانی تجارت کا سب سے بڑا مسئلہ بینکنگ چینل کا نہ ہونا ہے۔ امریکہ کے پاس متعدد آپشن موجود ہے کہ پاکستان کو ایران کے توانائی کے شعبے پر عائد پابندیوں سے استثنیٰ دیا جائے۔ تاہم، اس آپشن کا امکان نہیں ہے، کیونکہ امریکہ نے ایران کے بارے میں سخت موقف برقرار رکھا ہے اور ماضی میں استثنیٰ دینے سے ہچکچاتا رہا ہے اور اب اگر وہ اجازت دے گا تو اس کے لئے پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی ،امریکہ پائپ لائن کی تکمیل کے لیے پاکستان کو مالی امداد میں قرض یا گرانٹ کی شکل میں فراہم کر سکتا ہے، اور یہ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں شفافیت میں اضافہ یا پائپ لائن کے لئے بہتر حفاظتی اقدامات جیسی شرائط سے منسلک ہوسکتا ہے ۔امریکہ پائپ لائن منصوبے پر پاکستان کے ساتھ شراکت داری کے امکانات بھی تلاش کرسکتا ہے۔ جس میں امریکی کمپنیاں پائپ لائن میں سرمایہ کاری کریںاور اس کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے تکنیکی مہارت فراہم کریں۔ یہ آپشن خطے میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینے اور توانائی کی سلامتی کو بہتر بنانے سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچائے گا۔ فی الوقت ممکن نہیں تاہم پاکستان امریکی پابندیوں کو نظر انداز کرتا ہے اور پائپ لائن منصوبے پر آگے بڑھتا ہے تو اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہم نتائج کا سامناہوگا۔ سب سے پہلے، پاکستان کو امریکہ کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ ے گا، جس سے اس کی کمزور معیشت اور بین الاقوامی تجارت کرنے کی صلاحیت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔امریکہ پاکستان کے ساتھ کاروبار کرنے والی کمپنیوں پر جرمانے بھی عائد کرسکتا ہے۔ جس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اور معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ بہت سے ممالک نے ایران پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور پاکستان کے اقدامات کو ان پابندیوں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں جس سے اس کی سفارت کاری اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔یہ نتائج پاکستان کی معیشت، سفارتکاری، سلامتی اور ماحولیات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ پاک ایران گیس لائن کی تکمیل پاکستان کے توانائی کے شعبے، معیشت اور جغرافیائی سیاسی پوزیشن کے لیے انتہائی فائدہ مندہے۔ تاہم اس منصوبے کو اہم چیلنجز بھی درپیش ہیں اور اس کی کامیابی کا انحصار پاکستان کی ان چیلنجز سے موثر انداز میں نمٹنے کی صلاحیت پر ہے۔