اِسرائیل نے مغربی کنارے کے شہر جنین میں قائم فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپ پر حملے کیے ہیں، جس کے نتیجے میں 12 فلسطینی ہلاک اور 140 سے زائد زخمی ہوئے ہیں جبکہ جمعہ سات جولائی کو نابلوس میں کارروائی کرتے ہوئے اِسرائیلی فوج نے تین فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔ جنین میں قائم پناہ گزینون کے کیمپ پر ہونے والا یہ اِسرائیلی حملہ، 20 سال سے زائد عرصے میں مغربی کنارے میں ہونے والا سب سے بڑا اسرائیلی حملہ تھا۔ جس نے ہزاروں افراد کو کیمپ سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق اِسرائیلی حملے کے بعد مہاجرین کا کیمپ ملبے اور کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ جنین کے پناہ گزین کیمپ میں ہزاروں فلسطینی، 1948 کے نکبہ اور اسرائیل کے قیام کے بعد بے دخل کیے گئے 750,000 سے زیادہ فلسطینی مسلمانوں کی اولادیں ہیں،جو تنگ گلیوں اور ملحقہ چھتوں والی چھوٹی رہائشی عمارتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ اگرچہ اسرائیلی فوج پناہ گزین کیمپ کو "دہشت گردی" کا مرکز قرار دیتی ہے لیکن فلسطینیوں کے لیے جنین پناہ گزین کیمپ ہمیشہ سے "مزاحمت کی علامت" رہا ہے۔ اِسرائیل کے تازہ حملے نے 9 اپریل 2002 ء کے حملے کی یاد تازہ کر دی ہے،جب اسرائیلی افواج نے جنین پناہ گزین کیمپ پر اتنی ہی طاقت کے ساتھ حملہ کیا تھا جتنا اس نے پچھلے ہفتے کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ (HRW) کی تحقیقات کے مطابق 20 سال پہلے کے اسرائیلی حملے میں کم از کم 52 فلسطینی ہلاک ہوئے،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ 23 اسرائیلی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ جنین کا پناہ گزین کیمپ اس وقت سے "مزاحمت کی علامت" بن چکا ہے۔ فلسطینیوں کے بقول ’’فلسطین میں دو مقامات ایسے ہیں جنہیں اسرائیل کبھی بھی مکمل طور پر فتح نہیں کر سکا، جنین اور غزہ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جنین اور غزہ کے لوگوں کو بار بار دبانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ باوجود اس کے کہ 2002 کے انتفادہ کے وقت اسرائیل کے حملے کے دوران جنین کے کیمپ کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا تھا۔ اَلبتہ تازہ ترین حملے کے پس منظر میں اہم بات یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت ملکی تاریخ میں زیادہ دائیں بازو کی سب سے زیادہ نمائندگی پر مشتمل حکومت ہے جس میں الٹرا نیشنلسٹ اور الٹرا آرتھوڈوکس یہودی جماعتیں شامل ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کے بعض وزراء نے مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کو توسیع دینے کا عہد کیا ہے جبکہ دیگر نے فلسطینی ریاست کی کھل کر مخالفت کی ہے جن میں نیتن یاہو حکومت کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ شامل ہیں جنہوں نے20مارچ کو ایک بیان دیتے ہوئے فلسطینیوں کے وجود سے انکار کیا۔ اِس سے پہلے یکم مارچ کو، انہوں نے کہا کہ نابلس کے قریب فلسطینی قصبے حوارا کو "مٹا دیا جانا چاہیے"۔ نیتن یاہو حکومت کے کئی اہم اتحادی، جن میں مذہبی صیہونیت پارٹی شامل ہے، مغربی کنارے کے الٹرا نیشنلسٹ آباد کار ہیں۔ اِسرائیل کی موجودہ سخت گیر حکومت شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں 2005 ء میں خالی ہونے والی غیر قانونی بستیوں کو دوبارہ آباد کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے اِس نے مارچ 2023ء میں اِسرائیلی پارلیمنٹ سے قانون سازی بھی کی ہے۔ گزشتہ ہفتے کی فوجی جارحیت کا مقصد بھی فلسطینی مسلمانوں کو جنین کے علاقے سے زبردستی بے دخل کرنا ہے اور اسرائیلیوں کو ہومش، سا-نور، کدیم اور گنیم کی خالی کردہ بستیوں میں دوبارہ آباد کرنا ہے۔ یہ سبھی بستیاں فلسطینی شہروں جنین اور نابلس کے ارد گرد واقع ہیں۔ یاد رہے کہ 650,000 اور 700,000 کے درمیان اسرائیلی آباد کار سینکڑوں غیر قانونی یہودی بستیوں اور چوکیوں میں رہتے ہیں، جن کی اکثریت یا تو مکمل یا جزوی طور پر نجی فلسطینی اَراضی پر، مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں تعمیر کی گئی ہے۔ اگست 2005 ء میں، اس وقت کے وزیر اعظم ایریل شیرون کی طرف سے لاگو کیے گئے علیحدگی کے منصوبے کے تحت اسرائیل نے محصور غزہ کی پٹی اور شمالی مغربی کنارے میں واقع 21 غیر قانونی بستیوں میں سے 9,000 سے زیادہ آباد کاروں کو ہٹا دیا تھا۔ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت اب اِن چوکیوں کو قانونی حیثیت دینے اور موجودہ بستیوں کو وسعت دینے کے لیے قانون سازی کے ساتھ مکمل طور پر کام کا آغاز کرچکی ہے۔ فلسطین اور اِسرائیل کے مابین اختلافی اِیشوز میں مشرقی یروشلم کی حیثیت اور فلسطینی مہاجرین کی واپس اپنے آبائی علاقوں میں آبادکاری مرکزی نوعیت کے حامل ہیں۔ فلسطینی مہاجرین جو 1948ء سے لڑی جانیوالی مختلف جنگوں کے نتیجے میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں اِسرائیل اِن فلسطینی مسلمان مہاجرین کو اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کی اِجازت نہیں دیتا کیونکہ فلسطینی مہاجرین کی اِن علاقوں میں آباد ہونے سے فلسطین کے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں خاطرخواہ اِضافے کا اِمکان ہے جو اِسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کی سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی مسلمان سیاسی طور پر الفتح، حماس، اور حزب اللہ جیسے بڑے سیاسی گروہوں میں منقسم ہیں۔ اِس کے علاوہ "فلسطینی اسلامی جہاد" جیسے چھوٹے مگر فعال گروہ بھی ابھر چکے ہیں جن کے ساتھ فلسطینی نوجوانوں کی قابلِ ذکر تعداد منسلک ہے اور یہ گروہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک نئے جذبے کے ساتھ کوشاں ہیں۔ اِس تازہ جارحیت کے دوران اِسرائیل نے PIJ پر توجہ مرکوز کی ہے کیونکہ یہ گروپ کسی بھی سیکیورٹی معاہدے کی پاسداری سے انکار کرتا ہے جو اسرائیلی حکومت نے مصر کی ثالثی سے دوسرے فلسطینی دھڑوں کے ساتھ طے کیا ہے۔ اِسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت جاری رکھنے سے اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس غزہ میں سیاسی طاقت نہیں ہے ، حماس کے برعکس اور وہ اپنے لوگوں کی بھلائی کے لیے بھی براہِ راست ذمہ دار نہیں ہے۔ حزب اللہ نے بھی PIJ کی مزاحمت میں انکا ساتھ نہیں دیا، جیسا کہ اس نے 2021 ء میں کیا تھا، کیونکہ وہ لبنان میں اَپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ تناؤ کا سامنا کر رہی ہے اور اسرائیل کے ساتھ تنازع کی صورت میں ایک نئی مصروفیت لبنانی عوام کی ناراضگی کا سبب بن سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں اِتحاد پیدا کریں خصوصاً سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی بحالی کے بعد اور فلسطینی مسلمانوں کی آزاد ریاست کے قیام کے لیے متفقہ لائحہ عمل اِختیار کریں تاکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہوسکے۔