درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی ایک اور انداز بھی ہے ’’ہو جو چاہت تو ٹپک پڑتی ہے خود آنکھوں سے، اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی راولپنڈی میںوزیر اعظم شہباز شریف ۔نے جی ایچ کیو میں خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ لائن آف ایکشن کا باعث یہ ہے کہ آرمی چیف نے ملک کو آگے بڑھانے کا پروگرام دیا آپ اسے ٹاسک کہہ لیں کہ شہباز شریف انتظامی امور میں شہرت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جانے سے پہلے ملکی ترقی و خوشحالی کا جامع پروگرام یا نظام بن چکا آپ اسے حسن ظن کہہ لیں یا ایک پیغام۔انہوں نے ایک قول زریں بھی کہا کہ قرض سے بہتر ہے فقیری میں زندگی بسر کر لیں: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے خالد شریف نے کہا تھا: نہ اترے گا ہمارے پیار کا رنگ یہ دھیما ہے مگر کچا نہیں ہے تو صاحبو!شہباز شریف کا انداز بھی بہت میٹھا اور سرایت کر جانے والا ہے جو بھی ہے جی ایچ کیو کے الوداعی دورے میں آرمی چیف نے ان کا استقبال کیا گارڈ آف آنر بھی ان کا حق تھا سو پیش کیا گیا۔ بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہمارے وزیر اعظم آئندہ کی امید آنکھوں میں سجائے اور دل کو لگائے واپس آئے ہونگے۔ اسلام آباد میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کو اندھیروں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ویسے اس ترقی کا نظارہ ہم گلی محلوں میں دیکھ رہے ہیں کہ گھر گھر بجلی کے بلوں پر سینہ کوبی ہو رہی ہے لوگ حکومت کو بے نقط سنا رہے ہیں اور وہ ہیں کہ وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے بلکہ وہ جا رہے ہیں قوم کو جیتے جی مار کے۔ احسن اقبال ایک زمانے 2025ء تک کے منصوبے دیا کرتے تھے ،کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔کیا کیا جائے کچھ کی تو سچ مچ لاٹری نکلی ہوئی ہے نگران وزیر اعظم کا موضوع ٹاک آف دی ٹائون ہے حالانکہ آنے والا بے چارہ خود بھی کسی نگرانی میں آئے گا ۔ چلیے اپنے کالم کو ایک دلچسپ واقعہ سے مزین کرتے ہیں کہ قارئین کی تفریح کا بندوبست کرنے میں کیا حرج ہے، تو میرے معزز و مہربان قارئین ایک زمانے میں جب میں ٹی وی ٹیم کے ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں میں ڈاکیومنٹری رائٹرز کے طور پر جاتا تھا اور ہم نے تب ملتان بہاولپور اور بہاولنگر کی ڈاکیومنٹریز بنائیں۔ایک مقام جو حاصل پور کے قریب ہے وہاں ایک مزار پر پہنچے پتہ چلا کہ وہاں کچھ جانگلی قسم کے اوڈ لوگ دعا کرنے آتے ہیں ۔ایک اوڈ سے ہم نے دریافت کیا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔پتہ چلا کہ ان کے ہاں ایک عجیب روایت ہے کہ وہ دعا یہ کرتے ہیں کہ ان کا بچہ یا بیٹا چوری کرے اور پھر پکڑا جائے اور اس کے بعد وہ چوری نہ مانے تو پھر ہم اس کی شادی کا سوچتے ہیں کہ وہ روزی کمانے کے قابل ہو گیا ہے۔ خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ آ گئی۔ایک اور تصویر جو نظر نواز ہوئی تو دل کھل اٹھا اس تصویر میں شہباز شریف کا فنکاروں میں صحت انشورنس پالیسی تقسیم کر رہے ہیں ۔مسکرایا میں اس بات پر کہ دونوں میں سے بڑا فنکار کون ہے۔ کیا یہ فنکاری نہیں کہ آپ منی لانڈرنگ میں ملزم ہوں یہاں تک کہ سارے اگلے پچھلے حساب برابر کروا لیں اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی پیش کر دیں کہ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ یہ دل ہی بڑا حریص ہے: دل بھی کیسی شے ہے دیکھو پھر خالی کا خالی گرچہ اس میں ڈالے ہم نے آنکھیں بھر بھر خواب مزے کی بات یہ کہ اوپر سب ٹھیک چل رہا ہے اور نیچے پسے ہوئے عوام کراہ رہے ہیں۔ لوٹ مار ایسی تو کبھی نہ تھی یہاں تک بجلی پر بجلی گرائی جا رہی ہے۔ سولر پر لاکھوں خرچ کرنے کے بعد بھی ہمارا اٹھارہ ہزار بل آیا ۔شہباز شریف فرما رہے ہیں کہ سب کو سولر پر آنا پڑے گا اور مجھے پختہ یقین ہے کہ حکومت اگر ان کی پھر آ گئی تو سولر پر ٹیکس لگے گا یعنی سورج بھی ان کی پراپرٹی ٹھہرے گا۔ باقی رہی بات انتخابات کی کہ برطانیہ کی بھی خواہش ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں مگر عام تاثر ہے کہ حکومت کی کارکردگی رکاوٹ ہے۔ اب تو سراج الحق صاحب نے بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت جلد الیکشن سے فرار چاہتی ہے اس کے باوجود نگران سیٹ اپ کو شفاف الیکشن کروا دینے چاہئیں ویسے ڈر کس بات کا کہ مخالف تو پابہ زنجیر ہے۔ بندھے ہوئے ہاتھ سے بھی انہیں خوف آ رہا ہے۔ویسے بھی تفنن طبع کے لئے ایک مثال پیش ہے کہ ایک شیر ہر جانور سے پوچھتا ہے کہ میں کون ہوں ہر کوئی کہتا آپ جنگل کے بادشاہ ہیں شیر سن کر خوش ہوتا ایک مست ہاتھی بھی ادھر کو نکلا شیر نے اس سے یہی سوال کیا میں کون ہوں ہاتھی نے شیر کو سونڈ میں اٹھا کر پٹخ دیا ،شیر پیٹھ جھاڑتے ہوئے بولا جس بات کا معلوم نہ ہو تو کسی دوسرے سے پوچھ لیتے ہیں۔آخر میں دو اشعار: تیری آنکھوں کی طرح گہرا تھا زخم بھرنے میں بہت دیر لگی بات کرنا تھی ذرا سی تجھ سے بات کرنے میں بہت دیر لگی ٭٭٭٭٭