جمہوریت ،جمہوریت کی گھن گرج تو ہر طرف سنائی دے رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ جمہوری معاشرے کی کوئی چاپ اور دستک سنائی نہیں دے رہی ۔ سوال تو بنتا ہے کہ اس ملک میں بسنے والے کروڑوں لوگ بند گلیوں میں کیوں چکر لگا رہے ہیں ۔کتابوں میں لکھا ہے کہ جب تک کسی معاشرے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے وہاں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ اگر تاریخ کا سبق یہی ہے تو یہ سوال تو کرنے دیجیے کہ اس ملک میں یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں پر رہنے والے 70فیصد لوگوں کا مقدر رات کی سیاہی کی طرح تاریک کیوں ہے، کچی پکی چھتیں، شکستہ بنیادیں ‘ بھربھری دیواریں پھر یہ بھی ضمانت نہیں کہ دو وقت پیٹ بھر کر روٹی مل بھی سکے گی۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے جھریوں بھرے کی تعریف یہ ہے کہ جمہوریت واحد طرز حکومت ہے جس میں سے آپ کسی دروازے سے یا روشندان سے چھلانگ لگا کر داخل ہو جائیں آپ حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں ۔آپ کھرے ہوں یا کھوٹے آپ ملک پر حکومت کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جس سے جمہوریت اور اس کے ثمرات پر بات کروہ بلا تردد جواب دیتا ہے کیسی سماجی تبدیلی اور کہاں کا معاشی اور سماجی انقلاب۔ اپنا مقد زندہ درگور ہونا ہے۔جب میں پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں کی کارروائی دیکھتا ہوں ،آرام دہ کرسیوں پر آپ کو 70سے 80فیصد ارکان جھولتے‘ معذور افراد کی طرح گم سم بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اسمبلیوں میں آنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔جو آتے ہیں ان میں سے اکثر منہ سے کچھ نہیں کہتے یا تو جمائیاں لیتے رہتے ہیں یا پھر اپنی پارٹی کے لیڈر کی تقریر پر وقفے وقفے سے چونک کر ڈیسک بجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں یہ دلیل درست ہے کہ مانا وہ لوگ ان پڑھ ہیں یا اتنی صلاحیت نہیں کھتے کہ اپنا ماضی الضمیر بیان کر سکیں سلیقے سے اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتے جو وہ کہنا چاہتے ہیں لیکن ہیں تو وہ ہمارے ہی۔ ہمارے ملک کے ووٹ دینے والے بے خبر اور ووٹ لینے والے شاطر اور چالاک ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہم اپنے نظام کی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کرتے رہتے ہیں۔غلبے کی جبلت انسان کو اس طرح پامال کرتی ہے کہ وہ ہر چیز بھول جاتا ہے اس لئے پاکستان کی پوری تاریخ میں جا بجا سوالات کی بھرمار ہے۔ ہر دور میں ہر موڑ پر سوالیہ نشان ناچ رہے ہیں ہمارے ہاں ٹیکنو کریٹس کی حکومتیں ہوتی ہیں ایک حکومت نگران بھی ہوتی ہے جس میں کہا یہ جاتا ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے اپنے شعبے میں ہنر مند لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن ان حکومتوں میں بھی کھڑکیاں، روشندان اور دروازے کھلے رہتے ہیں بس دستک دینے والا کون ہے اور اس کے نام پر تصدیق کی مہر کس نے لگائی ہے اسے بھی سیٹ مل جاتی ہے۔2008ء سے اس چلتی ہوئی فلم کی کہانی میں بدلائو آیا ۔ تین بار اسمبلیاں مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی ہیں، کمزور جمہوریت کے لئے شاید یہی امید کی ایک کرن ہے۔2008ء سے 2023ء تک ہم نے سب کو آزما کر دیکھ لیا ہم اعتراض تو کر سکتے ہیں اور سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ناخواندہ اور نیم خواندہ افراد اقتدار کے ایوانوں تک کیسے پہنچتے ہیں۔ ہاں اس کی موافقت میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس معاشرے میں 100لوگ ہیں ان میں 10فیصد پڑھے لکھے اور 90فیصد ان پڑھ ہیں۔ انصاف کی رو سے جمہوری نظام حکومت میں 10لوگوں کو 90لوگوں پر حکومت کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا ۔ بات درست ہے کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا لیکن اسے ہر ملک کے خصوصی ماحول اور حالات کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے تب ہی وہ ایک ایسی متحرک جمہوریت ہو سکتی ہے جو حقیقت میں عام لوگوں کو با اختیار بنائے اور ایسی حکومتیں تشکیل دے جو ان کی ضروریات پوری کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ جمہوریت کی ایک نقل ہے یا جس طرح ہم جمہوریت کو جمہوریت کہہ کر نافذ کرنا چاہتے ہیں یہ محض ایک ڈھونگ لگتا ہے۔2008ء سے 2023ء تک ہم مسلسل جمہوری حکومتوں کے تین ادوار دیکھ چکے اس دور میں تینوں بڑی جماعتیں برسر اقتدار ہیں ۔پوری قوم نے اس تینوں ادوار کے فلیور چکھ لئے۔ سوچتا ہوں کہ ہم کتنے بدقسمت لوگ ہیں کہ اس اداس اور ویران سفر میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو ہماری رہبری کر سکے۔ موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو یہ محض اقتدار کی چھینا جھپٹی کا کھیل لگتا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ آسانی سی بات کیوں نہیں آتی کہ یہ معاشی سماجی اور طبقاتی ناانصافی کا شاخسانہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن گئے ہیں خود دیکھیں کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ یہ مافیاز کیا ہیں۔ یہ کیسے کام کرتے ہیں یہ سسٹم کیا ہے۔ کوئی سرکاری کام رشوت کے بغیر کیوں نہیں ہو پاتا۔ اگر آپ سسٹم کا میکنزم دیکھیں تو عقل دنگ رہ جائے گی۔رشوت لینے کی رکھوالی کیسے اشاروں کنائیوں میں کی جاتی ہے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں مافیا موجود نہیں۔الیکشن آ رہے ہیں تو ہر جماعت اور اس کا لیڈر کہہ رہا ہے کہ اسے ووٹ دو وہ پاکستان کی تقدیر بدل دے گا، وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان میں سے کس نے اپنے منشور کے مطابق کام کر کے دکھایا ،کس نے اپنا وعدہ نبھایا، کس نے کہا خوشحالی آئے گی۔ کوئی دعویدار رہا کہ روٹی کپڑا مکان ملے گا۔ کسی نے کہا کہ کروڑوں روزگار ملیں گے، لاکھوں سائبان فراہم کئے جائیں گے۔اس سوال کا جواب تو دیں کہ آپ میں سے کس نے ایک قوم تعمیر کی کوئی نیا نظام دیا کسی سسٹم کی اصلاح کی ۔ نہ انصاف دلایا ،نہ تعلیم ،نہ صحت، نہ عزت، نہ طبقاتی فرق ختم کیا اور نہ آپ میں سے کسی نے بھی معاشی عدل قائم کیا ۔ہاں یہاں پر کرپشن کو فروغ ملا بلکہ اسے پالا گیا۔ لوگوں کو اعداد و شمار اور اعشاریوں کے گورکھ دھندوں میں نہ الجھائیں صرف یہ بتائیں کہ اس دوران عام پاکستانی کی زندگی میں کیا بہتری آئی، کیا یہ قوم صرف عذاب سہنے کے لئے رہ گئی ہے۔ جس ملک میں پروان چڑھنے والی اکثریت پڑھی لکھی تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی کے ہنر مند افراد پر مشتمل ہو اور وہ عزم ،سچائی، ایمانداری کے ساتھ مسند اقتدار پر براجمان ہو تو ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ اگر آپ کے ملک کی اکثریت ان پڑھ‘ سست بے ایمان اور ہنر مندی سے محروم لوگوں پر مشتمل ہو تو آپ کبھی بھی پسماندہ ملکوں کی فہرست سے نہیں نکل پائیں گے۔ اس لئے آپ اپنے ہاں رائج جمہوریت کو دوش نہیں دے سکتے آپ ایک ٹکٹ میں دو فلمیںنہیں دیکھ سکتے ۔اندھیروں سے اجالوں میں لے جانے کے خواب مت دکھائیں۔ جن کے پاس اقتدار ہے اور جن کے پاس اختیار ہے ان سے گزارش ہے کہ پاکستان کے عوام اس حقیقی جمہوریت کے منتظر ہیں جہاں پاکستان کی کسی سڑک پر کوئی دھوپ یا سردی میں ننگے پائوں چلنے پر مجبور نہ ہو۔خلق خدا کی سسکیاں آپ کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔