سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا ہے، سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بنچ 12 دسمبر کو سماعت کرے گا، ریفرنس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ تشکیل دیا گیا ہے، آصف علی زرداری کی جانب سے صدر مملکت کی حیثیت سے 2011 میں فیصلے پر صدراتی ریفرنس بھجوایا گیا تھا،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ 9 رکنی لارجربنچ کی سربراہی کریں گے، جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل بھی بنچ میں شامل ہونگے، اس کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی لارجربنچ بینچ کا حصہ ہوں گے، پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول عوامی لیڈر تھے، بھٹو مرحوم کا سب سے بڑا جرم سامراجی قوتوں بالخصوص امریکہ کو للکارنا تھا، انھوں نے ملک میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی داغ بیل ڈالی، کہا : گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے، امریکہ کو سفید ہاتھی کہہ کر للکارنا، یہ بھٹو کے جرائم تھے۔ یہ تاریخ کا ستم ہے کہ جس وزیر اعظم نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا، مسلم ممالک کو یکجا کر کے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروائی، وہ لادین کہلایا اور آمر ضیائالحق کی "ضیائی" میں اپنے خلاف شائع ہونے والے وائٹ پیپر میں خدا کا گستاخ قرار دیا گیا کہ بھٹو نے ٹی وی پر ایک تقریر میں خدا کی قسم کھا کر انتخابی بے قاعدگیوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا، اے زیڈ فاروقی بھٹو کیس میں سب سے اہم سلطانی گواہ مسعود محمود کے برادر نسبتی این اے فاروقی کا بھتیجا تھا۔ اے زیڈ فاروقی کا ایک الزام یہ بھی تھا کہ بھٹو قائد اعظم اور علامہ اقبال کی انتخابی تشہیری مہم پر سخت نالاں تھے، اپنے دور اقتدار میں بھٹو نے قائد اعظم اور علامہ اقبال پر تقریبات منعقد کیں تو اپوزیشن نے سخت تنقید کرتے ہوئے پیسے ضائع کرنے کا الزام لگایا، بانی پاکستان کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی قائد اعظم سے مخالفت کی تفاصیل اور تجزیہ پیش کیا، بھٹو نے وائٹ پیپر کے جواب میں لکھا کہ مفتی محمود کا کہنا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں پاکستان کی تخلیق میں شامل نہیں تھا، مولانا مودودی چار یا پانچ قومیتوں کے نظریے کے خالق تھے، مولانامودودی نے "سیاسی کشمکش" میں لکھا کہ پاکستان کا قیام پاکستان کے صوبوں کی طرف سے قومیتوں کے قیام کا باعث بنے گا۔ جماعت اسلامی نے اس کتاب کی اشاعت روک دی، معراج محمد خان نے یہ کتاب مجھے کراچی کے ڈسڑکٹ بار روم میں دکھائی". تاہم بھٹو نے ملک کو متفقہ طور پر 1973 کا آئین دیا، جس میں گاہے بگاہے ترامیم پر قومی اتحاد نے آسمان سر پر اٹھا لیا مگر مرد مومن ضیاء الحق کی آئین معطلی کیساتھ نظریہ ضرورت کو مکمل سر تسلیم خم کر لیا، بھٹو اپنی کتاب میں قومی اتحاد پر غیر ملکی فنڈنگ کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ انکے خصوصی مشیر رفیع رضا نے جنوری 1977 میں آگاہ کیا کہ قومی اتحاد وجود میں آ رہا ہے، اسکا سربراہ اور دیگر عہدیدار کون ہونگے، رفیع رضا نے قومی اتحاد کے اسباب، طریقہ کار اور عزائم پر روشنی ڈالی، رفیع رضا نے زور دیکر بھٹو سے کہا کہ ان سے معلومات کے ذرائع معلوم نہ کریں لیکن ساتھ ہی تین متبادل رکھے کہ ایٹمی پروگرام بھول جائیں، انتخابات ملتوی کر دیں یا انتہائی سنگین نتائج کا مقابلہ کریں۔ رفیع رضا نے قومی اتحاد کے غیر ملکی رنگوں سے بھٹو کو آگاہ کیا، پاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کا راز بھی اسی سیاسی جنگ میں فاش ہوگیا اور اسکے بعد بھٹو کیلئے حالات کبھی ساز گار نہ ہوسکے، ایسا بھی بالکل نہیں ہے کہ بھٹو سے کبھی کوئی سیاسی غلطی نہیں ہوئی، وہ ایوب خان کی کابینہ سے نکل کر قومی لیڈر، وزیر اعظم اور قائد عوام کہلوائے، ضیاء الحق بھٹو کی خوب مداح سرائی بھی کیا کرتے تھے لیکن جنرل غلام محمد جیلانی نے پہلے بھٹو کو ضیاء الحق کو آرمی چیف بنوانے پر قائل کیا اور بعد ازاں جنرل جیلانی ضیائی دور میں وزارت دفاع کے سیکرٹری بن گئے حالانکہ جنرل جیلانی نے 1977 کے انتخابات سے پہلے بھٹو کو ملک کیلئے سب سے موزوں اور بین الاقوامی لیڈر قرار دیا تھا۔ مگر شاید مارچ 1977 کے انتخابات سے قبل ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان دور سے بطور سیاست دان سفر شروع کرنے کے باوجود کچھ حقائق بھول چکے تھے، جس کا انکشاف 1977 کے انتخابات کی چھان بین کیلئے قائم چار رکنی کمیٹی کے ایک رکن بریگیڈئیر میر عبدالنعیم کے بارے میں انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر راؤ عبدالرشید نے اپنے سپریم کورٹ کو دئیے گئے بیان میں پیش کیا کہ اس بریگیڈئیر نے ان سے پوچھا کہ تمھارا کیا خیال ہے کہ فوج دوبارہ بھٹو کو برسر اقتدار برداشت کر لے گی، جواب نہ ملنے پر اس نے کہا کہ پقینا فوج ایسا برداشت نہیں کر سکتی، اس کمیٹی کی رپورٹ کی ضیاء الحق حکومت کے وائٹ پیپر میں خوب تعریف کی گئی۔ احمد اضا قصوری کے والد کے قتل کیس میں جسٹس مولوی مشتاق سے اپنی عداوت کا بھی بھٹو اپنی کتاب میں تفصیل سے ذکر کرتے ہیں، سپریم کورٹ کے بنچ نے بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنا بھی تجویز کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے بقول انکا عدالتی قتل کروایا گیا، سپریم کورٹ کے بھٹو کیس سے متعلقہ بنچ میں شامل جسٹس نسیم حسن شاہ جو بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان بنے، انھوں نے بھٹو کی سزا پر ضیاء الحق حکومت کے خوب دباؤ کا اعتراف کیا تھا۔ آج بھی ہماری سیاست میں بھٹو اور ضیاء کی باقیات موجود ہیں، لہذا صدراتی ریفرنس پر قائم کردہ بینچ سے اس مرتبہ کم از کم ماضی کے حقائق ضرور سامنے آنے چاہیے عوام حقیقت جاننے کا پورا حق ہے۔