11 اگست کی تقریر، جو بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947ء میں کی تھی، ایک اہم تاریخی واقعہ ہے جو پاکستان میں ایک ایسی بحث کو جنم دیتا ہے، جو پاکستان کی تشکیل و تکمیل کے حوالے سے اہم سمجھی جاتی ہے ۔ اس تقریر کو، اکثر 'اقلیتوں کی تقریر' بھی کہا جاتا ہے، تاہم، اس تقریر کی تشریح ایک تنازع کا شکار رہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے مختلف دھڑوں میں اتفاق رائے کا فقدان پیدا ہوا ہے۔ قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کو پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک بلیو پرنٹ سمجھا جاتا ہے، جہاں انہوں نے ایک ایسی ریاست کا تصورپیش کیا جہاں تمام شہری، خواہ ان کا کوئی بھی مذہب ہو، برابر ہوں گے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے نے 11 اگست کی تقریر کے ارد گرد گفتگو کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس تقریر کو اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے مختلف تشریحات سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر، سیکولر جماعتیں اکثر مذہبی آزادی اور مساوات پر جناح کے زور کو اجاگر کرتی ہیں، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ وہ ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ دوسری طرف، مذہبی جماعتیں قائد اعظم کے اسلامی تشخص اور ان کے اسلامی اصولوں کے حوالہ جات پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، اور دعویٰ کرتی ہیں وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان کا سماجی تانا بانا، جس میں متنوع مذہبی اور نسلی گروہ ہیں، 11اگست کے حوالے سے قوم میںبھی اتفاق رائے کی کمی ہے ۔ مختلف گروہ اپنے عقائد اور تجربات کی بنیاد پر تقریر کی تشریح کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مذہبی اقلیتیں اکثر تقریر کو مساوی حقوق اور تحفظ کے وعدے کے طور پر دیکھتی ہیں، جب کہ کچھ اکثریتی گروہ اسے اسلامی اصول و قوانین کی رو سے دیکھتے ہیں کہ دین اسلام میں تمام مذاہب کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے اور جبر کی حوصلہ شکنیکی گئی ہے تاکہ غیر مسلموں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ قائد اعظم کے اتحاد کی کال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اور ان کیفکرکی پیچیدگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نصابی کتابیں اکثر تقریر کا ایک آسان ورژن پیش کرتی ہیں، ۔ اس کی وجہ سے پاکستانیوں کی نئی نسل اس تقریر اور اس کے مضمرات کے بارے میں محدود سمجھ رکھتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر مستقبل کی نئی ریاست کے تناظر میں بڑی اہمیت رکھتی ہے، جو بالآخر پاکستان کے جمہوری نطام کی بنیاد بن گئی۔ اس تقریر میں، قائد اعظم نے نئی ریاست کے لیے اپنیسوچ کا خاکہ پیش کیا کہ ریاست کس طرح مذہبی آزادی کو ترجیح دے گی اور تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بنائے گی، چاہے ان کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں۔قائد اعظم نے اس بات پر زور دیا تھاکہ ریاست مذہب کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی خاص عقیدے کو فروغ دے گی اور نہ ہی دبائے گی۔ انہوں نے کہا تھاکہ افراد کو بلا امتیاز اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو گی۔ مذہبی آزادی کے لیے یہ عزم نئی ریاست کے لیے جناح کیفکرکا ایک اہم پہلو تھا۔ مزید برآں، جناح نے اپنے یقین کا اظہار کیا کہ نئی ریاست کی تعریف صرف مذہبی شناخت سے نہیں کی جائے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ افراد کو ان کی مذہبی وابستگیوں سے تعبیر کرنے کے بجائے بنیادی طور پر ریاست کے شہری کے طور پر شناخت کرنی چاہئے۔ جناح نے مشہور تقریر میں کہا تھا، ''آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اس ریاست پاکستان میں اپنی مساجد یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو۔ اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔''یہ بیان ایک ایسی ریاست بنانے کے عزم کو اجاگر کرتا ہے۔ قائد نے پاکستان کی تشکیل دو قومی نظر یئے کے تحت کی تھی ، اس لئے پاکستان بننے کے بعد مذہبی اقلیتوں کے دل میں اس خوف کو دور کیاکہ انہیں پاکستان میں ان حالات کا سامنا نہیں کرنا ہوگا جو وہ مستقبل کے بھارت میں دیکھ رہے تھے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کے خدشات درست تھے ، آج کے بھارت کو دیکھ کر تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں واشگاف اظہار کررہی ہیں کہ مودی کے بھارت میں تمام مذہبی اقلیتیںخود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں ، بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اور ان کے مذہبی تشخص کو مسخ کرکے جبراً مذہب تبدیل کرانے کی پالیسیاں سرکاری سطح پر متعارف کرائی گئیں ہیں ، اس سے ثابت ہوچکا ہے کہ بھارت کوئی سیکولر اسٹیٹ نہیں ۔ آج ہم اگر اس تصور کو محسوس کریں کہ قائد اعظم مذہبی اقلیتوں کو تحفظ کی یقین دہانی کرارہے تھے تو اسے کسی خاص مفروضے سے جوڑ کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنا مناسب نہیں ۔ قائد اعظم نے مذہبی آزادی اور مساوی حقوق پر زور کر ایک تکثیری معاشرے کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے ابتدائی برسوںکو بطور قوم تشکیل دینے میں ان کیسوچ اہم تھی۔ان کے تصور کے نفاذ کو کئی سال چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے سیاسی عدم استحکام اور مذہبی کشیدگی کے ادوار کا تجربہ کیا ہے، جو بعض اوقات بد قسمتی کسی کے انفرادی فعل کی وجہ سے قائد اعظم کے نظریات کے مکمل ادراک میں رکاوٹ و غلط فہمی کا باعث بنتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭