سیاست کبھی علامہ اقبال قائداعظم سرسید سید محمد علی جوہر لیاقت علی خان جیسی قد آور ہستیاں کیا کرتی تھیں۔اس وقت سیاست پر لکھتے ہوئے لوگ اصول پر اور نظریات پر لکھتے تھے۔اختلاف میں بھی جھوٹ اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا تھا۔یہ شعر اس دور کے رہنماؤں کے پر صادق آتا ہے۔ نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے یعنی دلنواز سخن ، کرنا بھی رہمنا کی اہم صفت ہے ، اب سیاست بد تہذیبی کی گہری کھائی میں گر چکی ہے۔کیا لیڈران اور کیا اس کے حامی ،سب زبانوں سے بہتان اور بدتہذیبی کے شعلے برساتے ہیں۔استثنی افراد بھی ہوں گے گر مجموعی طور پر دہن بگڑ چکے ہیں، اب سیاست پر لکھنے کا مطلب ہے کہ آپ سیاستدانوں کے جھوٹے بیانات کا پھیلایا ہوا گند اٹھائیں اور اس گند کو اکٹھا کر کے اپنی تحریروں کا موضوع بنالیں، اب سیاست پر لکھنے کامطلب ہے کہ آپ سیاستدانوں کے جھوٹ پر خامہ فرسائی کریں ، سیاسیت پر لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ انتہا درجے کی بے حسی پر اور انا پرستی پر لکھیں، جو کچھ اس ملک میں ہورہا ہے بے حد تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔ خدا کے لئے اس قوم کے لوگوں کو انقلاب کے جھوٹے نعروں کے پیچھے برباد مت کریں خدا کے لئے اس قوم کے نوجوانوں کو اپنے وقت کی اہمیت کا احساس دلانے آنے کا سبق دیں۔ نہ کہ انہیں ورغلائیں کہ وہ آپ کے دھرنوں جلسے اور جلوسوں میں آکر گولیاں کھائیں ، روندے جائیں مارے جائیں اور ان کے بچے یتیم ہوں ،انقلاب کے نعرے لگا کر ہیجان برپا کرنے والے لیڈروں کا احتساب ہونا چاہیے وہ کسی بھی پارٹی کے ہوں جھوٹ بول کر خوابوں کے سراب اگانے والو کا احتساب ضروری ہے۔ ایک محاذ سڑکوں اور چوراہوں پر کھلتا ہے تو دوسرا محاذ سوشل میڈیا پر گرم ہوجاتاہے۔انتشار اور ہیجان برپاکرنے کی اس سیاست نے لوگوں کو بدتہذیبی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہاں تک کہ انسانی تعلقات کے اندر بھی سیاست کا ناسور گھس آیا ہے۔ اس وقت ایک ایسی تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس سے لوگ A political ہو سکیں ہم اس کا اردو میں ترجمہ اس طرح کریں گے کہ لوگ غیر سیاسی ہو سکیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اپنے حالات اور گردوپیش میں دلچسپی نہ لیں۔ ہمیں اپنے رویوں کی تہذیب سیکھنے کی ضرورت ہے۔ایک ایسے مائنڈ سیٹ کے سماج میں پر وقت لوگ بھڑکے رہتے ہیں جہاں سیاسی اختلاف کو اپنی ذات پر حملہ سمجھیں۔اور ہمہ وقت ایک دفاعی مورچہ سنبھالے بیٹھے ہوں وہاں بنیادی انسانی اقدار بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔اب لوگ اپنی ذاتی تعلقات سیاسی وابستگیوں کی بھینٹ چڑھانے پر تلے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سیاست کو اتنا حاوی مت کریں کہ آپ اپنے تعلق داریوں کو اس سیاست کی بھینٹ چڑھا دیں۔بدتہذیبی بدتمیزی اور منہ پھٹ ہونے کے ایسے مظاہر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ٹھیک ہے لوگ اپنے سیاسی نظریات کے ساتھ جیتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر یہ نہیں ہوتا کہ آپ کے مخالف سیاسی نظریات رکھنے والا بدتہذیبی کی گھٹیا سطح پر اتر کر آپ پر مغلظات بکیں اور آپ پر جھوٹے الزامات لگائیں۔ پچھلے دنوں میرے ساتھ سوشل میڈیا پر یہ واردات ہوئی کہ میں نے ایک پوسٹ شیئر کی جس کے جواب میں لاہور کی ایک سینئر ادیبہ نے میری پوسٹ پر آکر بالکل تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ لکھے جسے کوئی بھی غیر جانب دار شخص گالی تصور کرے گا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ خاتون جو افسانہ نگار ہیں اور کچھ شاعرہ وغیرہ بھی ہیں ایسی زبان استعمال کریں گی اور ایسے رویے کا مظاہرہ کریں گی جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں جسے میں اپنے کالم میں نقل نہیں کرسکتی پھر دوسرے لمحے کو میں نے سوچا کہ اس میں حیرت کیسی ہے یہ جس لیڈر کی طرف دار ہیں وہ اب اپنے فالورز کے ذہنوں میں جنون اور انقلاب کے نام پر بد تمیزی اور بد تہذیبی ہی کے بیج بو رہا ہے ، میں ان کے سطح پر نہیں آ سکتی تھی تو میں نے ان کو فورا ڈیلیٹ کیا ان کو بلاک کردیا۔پھر ایک اور خاتون جو ہمارے ریڈیو کے کو لیگ اور ہمارے فیملی فرینڈ کی بیگم صاحبہ ہیں اور جنہیں ہم عزت واحترام سے بھابھی پکارتے ہیں جب تک یہ خاندان لاہور میں تھا ہمارا آپس کے گھروں میں آنا جانا رہا ہے، انہوں نے ایک پوسٹ پر آکر مجھ پر گھٹیا الزم لگایا ،جو عموماً تبدیلی کا نعرہ لگانے والے ان صحافیوں پر لگاتے ہیں ،جو ان کے لیڈر کے خلاف لکھیں۔ یقین کریں کچھ دیر کے لئے تو میں شاکڈ ہوگئی اور میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون جو سرکاری افسر ہیں وہ اس حد تک گر جائیں گی۔مجھے اس الزام کے جواب میں ان کے ساتھ اپنے خاندان کے اچھے تعلقات کا خیال آیا، میں خاموش رہی۔ لیکن میں نے لکھا کہ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں اور مجھے اس چیز سے دکھ ہوا ہے مگر میں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کے اور میرے رویے میں تہذیب کا فرق ہے۔اس طرح آپ کسی کی پوری پیشہ ورانہ زندگی کو ایک جھوٹے بہتان کی نذر کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ ایک سیاسی لیڈر کی محبت میں کسی کی زندگی کو جانے بغیر اس پر الزام۔لگائیں یہ میرے نزدیک یہ بدترین گالی تھی۔ میں کسی کو یہ وضاحت دینے کی پابند نہیں ہوں کہ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو ہمیشہ اپنے ضمیر اور اپنی سوچ کی دیانت کا پابند رکھا ہے۔الحمد اللہ صحافت کے خار زار میں اب تک کا سارا سفر اپنی ضمیر کے مطابق طے کیا۔ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔ سماجی سطح پر یہ ایک تہذیبی اور اخلاقی سانحہ ہے کہ یہ عدم برداشت سے بھڑکے ہوئے لوگ اپنے تعلقات کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھادیں۔