پاکستانی سیاست میں جمہوری پارٹیوں کی بھر مار ہے۔ جدھر دیکھو ، جہاں دیکھو ، ہر طر ف الموجود۔ جتنی کثیر تعداد میں الیکشن کمیشن کے پاس یہ پارٹیاں درج ہیں ، اس سے کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ پاکستان افراطِ جمہوریت کا شکار ہوگیا ہے۔ ایسا وہ ماہرین ِ سیاسیات کہہ رہے ہیں جنکا خیال ہے کہ ترقی کی شرح اور سیاسی پارٹیوں کی تعداد میں نسبت ِمعکوس ہوتی ہے۔ یعنی کسی قوم کی خوشحالی کیلیے شرط ہے کہ صرف ایک ہی پارٹی ہو جو ملک کی تعمیر و ترقی کا خواب بنے اور اسکی تعبیر کی ذمہ دار بھی ہو۔ مغرب کی تو ادا ہی نرالی ہے۔ وہاں، یا پھر جہاں اسکا کبھی سایہ پڑا ہے ، یہ بدعت عام ہے کہ ایک سے زیادہ پارٹیوں کو نہ صرف کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے بلکہ اسے ملک اور معاشرے کے لیے باعثِ خیر و برکت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ’’دانش ِمشرق‘‘ یہی کہتی ہے کہ عوام اور ملک دونوں کا بھلا اسی میں ہی ہے کہ سیاست کے معاملے میں رقابت کے پہلو سے بچا جائے۔ حکمران پارٹی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کو پھلنے، پھولنے نہ دیا جائے کہ اس سے معاشرتی انتشار کی عکاسی ہوتی ہے۔ بھلا ہم نے دو متضاد خطوں اور وہاں مروج طرز سیاست کو کیوں چھیڑا؟ کیا چھپائیں، وطنِ عزیز میں جمہوری پارٹیوں کی حشر سامانیوں کا تذکرہ مقصود ہے جنکی بکثرت موجودگی اور جمہوریت کے ساتھ انکی وارفتگی کے باوجود مہنگائی ب بے لگام ہوئی پھرتی ہے۔ چونکہ ہم مہنگائی کو شر انگیزی ، فتنہ اور فساد کی جڑ سمجھتے ہیں اویہ کہ مہنگائی آمرانہ دور کا تحفہ ہے۔کوئی ہمیں لاکھ سمجھائے، ہم سیاست کے علاوہ مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کی طاقت کسی میں نہ ہی تو ہم سمجھتے ہیں اور نہ ہی دیکھ پارہے ہیں۔ اب اگر ہمارے اندر مغرب کی محبت میں ایک سے زیادہ پارٹیوں کو برداشت کا مادہ پیدا ہو ہی چکا ہے تو حب الوطنی ، جو کہ کسی بھی ملک کی سلامتی اور بقا کی ضمانت ہوتی ہے، کے تقاضوں کی روشنی میں اتنی امید کرنے میں تو حق بجانب ہیں کہ سیاسی پارٹیاں مل کر مہنگائی کے خلاف اتنا فلک شگا ف نعرہ لگائیں کہ یہ دم دبا کر بھاگ جائے۔ لیکن ہمارے ہاںصورت حال ہوشربا ہے۔ اب ہم جس مکتبہ فکر میں آجکل لپٹے ہوئے ہیں یہ بھی ماننے کیلئے ہرگزتیار نہیں کہ مہنگائی پلٹ کر وار کر ے اور سیاست کی صفیں ہی الٹا دے۔ یعنی ، سیاست نہ ہوئی ،بچوں کا کھیل ہوا ۔اوپر سے نیچے تک سب اس کی چیرہ دستیوں اور ہولناکیوں کی قائل، لیکن ضد بازی اتنی کہ جب مرا مرا کر مہنگائی حزب اختلاف کا نعرہ بنی ہے تو حکومت سرے سے اسکے وجود سے منکر ہوگئی ہے۔ یعنی نہیں ہے۔ہے بھی تو معروضی حالات کے تناظر میں فطری۔ مشرقِ وسطٰی میں جمہوریت کے نام پر پیدا ہونے والی طوائف الملوکی سے لیکر کرونا اور اسکے بعد روس اور مغرب کے درمیان ہونے یوکرائن پر ہونے والا تنازع، طلب اور رسد کے مسائل پیدا کرگیا ہے۔ شکر کریں کہ ہم اتنے متاثر ہوئے ہیں جتنا کہ بہت سے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک۔ پچھلے تین سالوں میں، جب مہنگائی کا جن بے قابو ہوا تنازعہ کرپشن کے سوال پر تھا۔ وہاں بھی یہی صورتحال تھی۔ سابقہ حکومتوں کے بہت سے کرداروں نے جیل کی ہو ا کھائی۔ حتیٰ کہ تین بار منتخب وزیر اعظم کو خود ساختہ جلا وطنی پر جانا پڑا۔ عدالت عالیہ کے حکم پر بھی نہیں لوٹے۔ جب کرپشن کو مانتے ہی نہیں ، توحکومت کے اصرار پر اس میں ملوث پائے جانے یا پھر اس کی سزا پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب کیا کہتے ہیں ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق اس ناچاکی کے بارے میں اور وہ بھی اس وقت جب مہنگائی کا شر معیشت اور معاشرت کو طوائف الملوکی کے دہا نے پر لے آیا ہے؟ اب ہم اس چینی حکمت کا حوالہ نہیں دینا چاہتے جو کسی صحافی کے سوال پر پھٹ پڑی کہ چلو تیل اور گیس مہنگے ہیں اور یہ کہ فرنس آئل پر چلنے والے بجلی گھر وں کی مہنگی بجلی لینا مجبوری ہے، لیکنان مشکل حالات میں مشرق بعید سے مہنگے پرزے منگا کر ملک میں گاڑیاں اسمبل کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ حالات کی ستم ظریفی ہی ہے نا کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں کی مد میں جب حکومت نے کمی یا پھر گریجویٹ نوجوانوں کو روزگار دینے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے اسے اپنے مہنگائی اور اسکی ذمہ دار حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا نتیجہ قرار دے ڈالا۔ جمہوری پارٹیوں کے یہی طور طریقے ہی ہیں جس کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کے مقامی انتخابات میں سیاسی پارٹیاں آزاد امیدواروں کے ہاتھوں پٹیں۔ کہنے والوںنے امید بھی ظاہر کردی کہ سپریم کورٹ کی مقامی حکومتوں میں دلچسپی اور سیاسی خلا کے پیش نظر چاہیں توترقی پسند دانشور، سول سوسائٹی تنظیمیں اور مزدور یونین مل کر ایک نئی پارٹی بنا سکتیں ہیں! ہمیں یقین کہ "مجوزہ پارٹی "لازمی طور پر مہنگائی دشمن ہوگی۔ یہ انقلاب کب آئے، وقت لگے گا لیکن وہ وقت بالکل سامنے ہے جب حزب اختلاف کا لانگ مارچ سندھ کی حدود سے نکل کر وسیب میں داخل ہو،تمام ’’جھومری پارٹیاں‘‘ اپنی اپنی جغرافیائی حدود میں اسے ’’ہو جمالوں‘‘ کے ہاتھوں سے لیتی ملتان پہنچیں اور جلسے میں ہمقدم ہو کر پہروں جْھمر ڈ الیں۔لیکن ظاہر ہے ’’جھمر پارٹی ‘‘کوئی نئی پارٹی نہیں ہوگی بلکہ صرف لمحاتی سا جلوہ ،جو صرف امکانا ت کو ہوا دیتا ہے ، کسی حتمی نتیجے کا متقاضی نہیں!