اسلام آباد(سپیشل رپورٹر) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لوگوں کے گھروں میں گاڑیاں ہیں، اچھا لائف سٹائل ہے مگر ٹیکس نہیں دیتے ، بہت جلد ایسے لوگوں تک پہنچنے والے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے ، دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا ہو گا، 22 کروڑ آبادی کو رسمی معیشت کا حصہ بنا کر اثاثہ بنایا جا سکتا ہے ، سمندر پار پاکستانیوں کے لئے مزید آسانیاں پیدا کریں گے ، حکومت مشکل وقت میں معاشرے کے غریب طبقات کی براہ راست مدد کرے گی۔ان خیالات کااظہار انہوں نے منگل کو ملک کے پہلے ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم ’’راست‘‘ کا اجرا کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا نچلے طبقے کو اوپر اٹھانا ہی حکومت کی اصل کامیابی ہے ۔وزیراعظم نے کہا حکومت کے اختتام پر ہماری کامیابی کا پیمانہ یہ ہو گا کہ ملک میں غربت کم ہوئی یا نہیں اور خوشحالی کا ثمر نیچے تک گیا یا نہیں۔ وزیراعظم نے کہا ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں غربت بڑھی لیکن پاکستان میں قدرے کمی آئی ۔ وزیراعظم نے سٹیٹ بینک کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ہدایت کی کہ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے مزید آسانیاں پیدا کی جائیں اور ان کی شکایات کے ازالے کے لئے سیل قائم کیا جائے ۔این این آئی کے مطابق وزیر اعظم نے کہا حکومت کے 5 سال مکمل ہونے پر دیکھوں گا غربت ختم ہوئی یا نہیں۔قبل ازیں وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر بہت ترقی کرچکا ، ایک زمانے میں رقوم کی منتقلی میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے لیکن راست کے ذریعے اب یہ کام سیکنڈز میں ہوگا۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ بینک اب عام شہریوں کو بھی قرض فراہم کررہے ہیں، راست ڈیجیٹل ادائیگی میں انقلاب پرپا کرے گا۔انہوں نے کہا ای بینکنگ لین دین میں ہر سال 30 فیصد اضافہ ہورہا ہے ۔علاوہ ازیں وزیراعظم سے وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق ،وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر بحری امور علی زیدی،سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، کراچی کے رکن قومی اسمبلی آفتاب صدیقی نے ملاقات کی ۔عمران خان نے ہدایت کی کہ کراچی میں جاری تمام ترقیاتی سکیموں پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے تاکہ لوگوں کو بہتر خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے ۔مزیدبرآں وزیراعظم نے فرانسیسی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن خطے کے امن کے لئے ناگزیر ہے ، افغانستان سے تین گروپس پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں جنہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا افغانستان میں موجودہ عارضی سیٹ اپ کے بعد سے وہاں کوئی سنگین واقعہ پیش نہیں آیا، افغان حکومت سے کہہ دیا کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اگر طالبان کی سرزمین سے دہشت گردی ہوگی تو افغان عوام بھی متاثر ہوں گے ۔وزیراعظم نے کہا افغانستان میں چار کروڑ افراد رہتے ہیں، پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کرسکتا، دنیا کو افغان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہئے کیونکہ دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ورنہ افغانستان میں کوئی انسانی المیہ بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا افغانوں نے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا، کابل کے سقوط کے بعد سے دو لاکھ سے زائد افغان پاکستان آچکے ، ہم افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کر سکتے ،پاکستان افغانستان کے اطراف تمام علاقائی ممالک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے ۔فرانس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا فرانس پاکستان کے لئے بہت اہم ہے کیوں کہ پاکستان کی نصف برآمدات یورپ کو جاتی ہیں، فرانس کے صدر سے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا، فی الحال دورے کا کوئی پروگرام طے نہیں لیکن فرانس کا دورہ کرنا چاہوں گا۔انہوں نے کہا ہم معیشت کو اسی صورت اوپر لے جاسکتے ہیں جب ہمارے دنیا سے اچھے تعلقات ہوں۔عمران خان نے کہا بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا، کشمیر کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے ، خطے میں امن کے لئے بھارت سے بات ہوسکتی ہے تاہم اس کے لئے پہلے بھارت کو کشمیر پر لیا گیا یک طرفہ اقدام واپس لینا ہوگا، اس اقدام کے بغیر بھارت سے کوئی بات کرنا کشمیریوں سے غداری کے مترادف ہوگا ۔وزیر اعظم نے کہا میں نے امن کے لئے مودی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر بدقسمتی سے مودی آر ایس ایس کے انتہا پسند نظریے کا حامی ہے ۔وزیر اعظم نے کہاسنکیانگ چین کا حصہ ہے ، یہ کوئی تنازع نہیں جبکہ کشمیر کو دنیا نے تسلیم کیا کہ یہ عالمی تنازع ہے ۔عمران خان نے کہا پاکستان کے امریکہ سے بہت اچھے تعلقات قائم ہیں، امریکہ سے تعلقات پر تنقید دہشتگردی اور افغان صورتحال کی وجہ سے کی،میں نے ہمیشہ افغانستان میں امریکی مہم جوئی پر تنقید کی، امریکہ کی افغانستان میں ناکامی پر پاکستان کو ذمہ د ار ٹھہرایا گیا۔وزیر اعظم نے کہا امریکہ ابتداء میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے افغانستان آیا تھا، ہمارا مشترکہ مفاد افغانستان میں استحکام ہے ، ہم امن میں امریکہ کے شرکت دار ہیں ،تنازعات میں نہیں، پاکستان کے عوام کے تحفظ کی ذمہ د اری یہاں کی قیادت کی ہے ،امریکہ کی نہیں۔