ہندکو زبان کے بزرگ صوفی شاعر سئیں احمد علی سئیں کا شعری مجموعہ گنجینہ سئیں کے نام سے شائع ہوا ہے، یہ کتاب گندھارا ہندکو اکیڈمی پشاور کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ 1033 صفحات پر مشتمل کتاب کو علی اویس خیال نے مرتب کیا ہے اور ہندکو اکیڈمی کے چیف ایگزیکٹو محمد ضیاء الدین نے شائع کیا ہے۔ بزرگ صوفی شاعر احمد علی سئیں کا تعلق پشاور سے ہے ، آپ کا شمار انیسویں اور بیسویں صدی کے معروف شعراء میں ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری معروف صنف سی حرفی پر مشتمل ہے۔ آپ کے کلام میں فکر و فن کی پختگی کے ساتھ ساتھ اپنی مٹی، اپنی دھرتی اور اپنے وسیب سے محبت کا اظہار بھی موجود ہے اور شاعری میں پیغام اور پیام بھی ، شاعری کے موضوعات میں حمد، نعت، قصیدہ، حسن و عشق، فطرت، تصوف، عرفان زار، عاجزی، انکساری، سچائی، سخاوت، دنیا اور دنیا کی بے سباتی سب شامل ہیں۔ گنجینہ سخن میں محمد ضیاء الدین، ڈاکٹر صلاح الدین، پروفیسر محمد عادل، سید سعید گیلانی، پروفیسر حصام حر کی آراء کے ساتھ ساتھ کتاب کے مرتب علی اویس خیال کی طرف سے پیش مقدمہ شامل ہے۔ ضیاء الدین کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کے صوفی شعراء میں حضرت احمد علی سئیں کو اعلیٰ مقام حاصل ہے، احمد علی سئیں بھی بابا بلے شاہ، بابا فرید، رحمان بابا، مست توکلی، شاہ عبداللطیف ڈھٹائی، سئیں فقیر، سئیں غلام دین ہزاروی اور شاہ حسین کی طرح اپنی شاعری میں صوفیاء رنگ کی بدولت آفاقی پیغام کو شاعری میں ڈھال کر لوگوں تک پہنچایا، وہ مزید لکھتے ہیں کہ آپ نے اپنی 95 سالہ زندگی میں ہزاروں اشعار کہے،1906ء میں پشاور میں ادبی تنظیم بزم سخن قائم ہوئی تو اس میں بھی سئیں احمد علی کا نام آتا ہے۔ دنیا کی قدیم تہذیبوں میں گندھارا تہذیب کو بہت بڑا مقام حاصل ہے مگر سرائیکی کی طرح گندھارا تہذیب بھی مسلسل حملہ آوری کی زد میں ہے، مقامی خطوں کو غلام اور محکوم بنانے میں حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کو بھی بہت عمل دخل حاصل ہے، جس طرح وسیب کو تقسیم کر دیا گیا اور سرائیکی زبان کے نام کو بھی مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا مگر اب سرائیکی وسیب کے لوگ ایک نام پر متفق ہو چکے ہیں مگر گندھارا تہذیب کی زبان کے اب بھی مختلف نام ہیں جیسا کہ ہزارہ، خالصہ، ہندکو، پوٹھوہاری و پشاوری وغیرہ مگر خوشی کی بات ہے کہ گندھارا ہندکو اکیڈمی نے احمد علی سئیں کی کتاب کو ہندکو کا نام دیا ہے۔ اسی زبان کیلئے یہی نام مناسب ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے سرائیکی اور ہندکو کا آپس میں قدیم رشتہ ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں زبانوں کا لب و لہجہ ایک جیسا ہے اگر ہم صرف ایک لفظ سئیں کو لے لیں تو اس سے بھی دونوں زبانوں کے درمیان یکجہتی کے عناصر تلاش کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس حقیقت کو سب مانتے ہیں کہ سئیں سرائیکی زبان کا بہت میٹھا لفظ ہے۔ اس کے سرائیکی لغت میں اس کے بہت معنی آئے ہیں جن میں عالی مرتبت، عالی جناب، حضور والا، جناب والا وغیرہ شامل ہیں۔ انگریزی میں یہ لفظ سر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ سرائیکی وسیب میں جب کسی کو سئیں بولا جاتا ہے تو اُس کے سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ ’’جی سئیں‘‘ لیکن افسوس کہ بعض علاقوں میں اس خوبصورت لفظ کو ملنگ، کملا، بھولا ،بیوقوف، منگتااور بھکاری کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ وسیب اور سندھ میں نہایت ہی کثرت اور محبت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ پوٹھوہار اور ہندکو کے علاقوں میں بھی یہ لفظ تصوف اور روحانی دنیا کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ وسیب میں آج بھی یہ لفظ محترم ہے، سرائیکی میں سئیں جبکہ سندھی سائیں کہہ کر بلاتے ہیں۔ مسئلہ صرف پاکستانی زبانوں کا نہیں بلکہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ٹیلی فون پر ہیلو کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کچھ علماء کرام نے ہیلو سے منع کیا تھا پھر سوال یہ تھا کہ اس کے متبادل کیا لفظ استعمال ہو، بہت سی تجویزیں آئیں مگر ایک معتبر تجویز یہ تھی کہ ٹیلی فون پر ’’ہیلو‘‘ کی بجائے سئیں اور جی سئیں استعمال کیا جائے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ یہ مشرقی زبان کا لفظ ہو گا اور جہاں مغرب کی لسانی برتری کا تاثر ختم ہو گا وہاں احترام بھی ملحوظ خاطر رہے گا مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد بھی یہاں انگریزی راج ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں مہمان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ہر زبان کے اپنے الگ الگ لفظ ہیں۔ جیسے فارسی میں ’’آمدنت آبادی مائ‘‘ پنجابی میں ’’جی آیاں نوں‘‘ عربی میں ’’اھلا و سھلا مرحبا، سندھی میں ’’بھلی کری آیاں‘‘ انگریزی میں ویلکم، پشتو میں ’’پخیر راغلے‘‘ بلوچی میں ’’وش آتاگے‘‘ براہوی میں ’’بخیرٹ‘‘ ہندکو میں ’’خیر نال آیو‘‘ جبکہ سرائیکی میں ’’بسم اللہ آئے وے سئیں، سجن آون اکھیں ٹھرن‘‘ کہا جاتا ہے۔ سرائیکی کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بسم اللہ بھی آجاتی ہے اور سئیں بھی ، اس لئے سرائیکی کو امتیازی خصوصیت حاصل ہے، البتہ یہ ٹھیک ہے کہ تمام زبانیں اپنی جگہ قابل احترام ہیں، سب کا اپنا اپنا مقام اور سب کا اپنا اپنا مرتبہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی زبانوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملنا چاہئے۔ آخر میں گندھارا ہندکو اکیڈمی پشاور کو بہترین کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کروں گا کہ ہندکو زبان کے علمی ادبی سرمائے کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی ہند آریائی زبانوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ بغیر ترجمے کے ایک دوسرے کی بات کو سمجھ لیتے ہیں مگر دنیا میں بہت سی زبانیں ایسی ہیں جہاں ہمارے صوفیاء کا پیغام پہنچنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ پاکستانی زبانوں کو ترقی دی جائے کسی بھی ایک زبان کی لسانی برتری نہیں ہونی چاہئے، لسانی شاونزم کا خاتمہ ہونا چاہئے اور تمام پاکستانی زبانوں کو ترقی کے مواقع ملنے چاہئیں، ہمارے ہاں ظلم یہ ہے کہ جو قومیں اور زبانیں لسانی تعصب کا شکار ہیں اُن کو لسانیت کا فتویٰ دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے جوکہ ہر لحاظ سے غلط ہے، ریاست اور ریاست کے اکابرین کو اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنا بیانیہ درست کرنا چاہئے اسی کا نام حب الوطنی اور پاکستانیت ہے۔ آخر میں معارفت کے حوالے سے احمد علی سئیں کے چند شعر رنگ چاہڑے جس نے پربتاں نوں طلب ازل سیں اُسے مشتاق دی اے ہمسری کرنے اُسدی آئے لکھاں وار سہہ نہ پائے آفاق دی اے جس قدم ٹھہریا عرش فرش ٹھہرے خوبی خوبیوں میں یہ میثاق دی اے خود پرست ہن پرکھدے کہہ سائیاں جبکہ خاتم یہ مہر فراق دی اے