استعماری طاقتوں کو اپنی جغرافیائی حدود میں سمٹے دہائیاں بیت گئیں لیکن انکی وارث ریاستوں نے جغرافیائی، تاریخی اور ثقافتی طور پر منفرد خطوں پر دھونس و دھاندلی سے حکومت کرنے کی روش ترک نہیں کی۔ انسانیت سوز مظالم کی تاریخ رقم ہو رہی ہے اور مزاحمت کے عَلم بھی سرنگوں نہیں ہو پا رہے۔ یہاں پر ان بیانیوں کا ذکر اہم ہے جو قابض طاقتیں اپنائے ہوئے ہیں۔ پہلے جیوپولیٹکس بہانہ تھی تو اب دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ لیکن نتیجہ ایک ہی ہے کہ لوگ تشدد کے گھن چکر میں پس کر رہ گئے ہیں۔ حریتِ فکرو اظہار پر قدغنیں ہیں تو سرکاری سرپرستی میں تخلیق پانے والا ادب استعمارِ نو کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔ حال ہیں میں شائع ہونے والی کتاب، جس میں کشمیر اور فلسطین میں زندگی کی عکاسی کرنے والے مزاحمتی ادب اور ڈاکیومینٹریوں کا جائزہ لیا گیا ہے، میں تجویز دی گئی ہے کہ استعمارِنو کے مسئلے کو ماحولیاتی اخلاقیات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب رابعہ عامر نے لکھی ہے جو نمل اسلام آباد کے انگلش ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے دوہزار سولہ میں اس کتاب کی طرف سفر کا آغاز اپنے پی ایچ ڈی مقالے پر تحقیق سے شروع کیا تھا۔ تین سال بعد مودی حکومت نے کشمیر کی خود مختار حیثت کو ختم کیا، ممکنہ مزاحمت سے بچنے کے لیے لگائے لاک ڈاون سے لیکر کرفیو،نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ، تشدد، عصمت دریاں اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور جنگ کے امکانات تک سب اس کتاب کے پس منظر کا حصہ ہیں۔ وہ فلسطین کو جڑواں مسئلے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ کشمیر پر مزاحمتی ادب کے جائزے کے لیے انہوں بشارت پیر کے کرفیو نائٹ کا انتخاب کیا ہے جب کہ فلسطین کے حوالے سے انہوں نے غدا کرمی کے فلسطین کے سفرنامے واپسی کو چنا ہے۔ اول الذکر میں زندگی کے مختلف پہلوں بشمول محبت اور جنگ کی عکاسی کی گئی ہے جب کہ آخرالذکر میں جنگ و افراتفری کے نتیجے میں لوگوں کی دربدری کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ چار سو چھپن صفحات پر مشتمل اس کتاب میں تنازعات میں گھرے ان دو خطوں میں جس زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے اس سے ایک تصور واضح طور پر ابھرتا ہے اور وہ ہے لوگوں کی اہانت ( بے قدری)۔ ان کی تاریخ، ثقافت و تمدن کو ہی رد نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے قدرتی وسائل کا بھی استحصال ہوتا ہے۔ وہ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتے، انہیں شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ریاست سے اپنی وفاداری کو یقینی بنائیں۔ ان بیانیوں کو پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن میں بار بار سوال اٹھتا ہے کہ آخر انسانیت کی اتنی تذلیل کیوں؟ وہ کونسے عظیم مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے نام نہاد جمہوری طاقتیں ان اقدار کی خلاف ورزی کر رہی ہیں جن کی نہ تو انسانیت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی ان کے اپنے قوانین؟ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مصنفہ کا تعلق شعبہ ادب سے ہے اور ایک بیانیے کے ذریعے قاری کے ذہن میں سوال ابھارنا انکا فن گردانا جاسکتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب کتاب کے تعارفی حصے میں موجود ہے جہاں وہ ماحولیاتی اخلاقیات کو موضوع سخن بناتی ہیں، ایک نقطہ نظر کی وضاحت کرتی ہیں کہ کیسے پالیسی ساز، ادیب اور تجزیہ کار اس کی روشنی میں عالمی معاملات کو دیکھ کر استعمارِ نو کا کانٹا انسانیت کے دل سے نکال پھینک سکتے ہیں۔ ماحولیات اخلاقیات انسان پر فطرت کے تحفظ کی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے درکار ذہنی صلاحیتوں اور فکری بالیدگی کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے اور ان صلاحییتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ریاست کی ذمہ داریوں کا تعین۔ ماحولیاتی اخلاقیات کے فلسفے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب میں کی گئی کشمیر اور فلسطین میں زندگی کی تصویر کشی قاری کے ذہن میں زندگی کا ایک متبادل خاکہ ابھارتی ہے جہاں لوگ فطرت کے ساتھ مطابقت سے جی رہے ہو تے ہیں۔ غیر منطقی ریاستی پالیسیاں اور بندوق کی نوک پر ان کا اطلاق لوگوں کوذہنی انشار میں مبتلا نہیں کرتا۔ دھماکوں، اندھا دھند فائرنگ، کرفیو اور لاشوں، نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ، عصمت دری اور تشدد سے پاک ماحول۔ ترقی کے نام پر جنگلات کی کٹائی اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استحصال پر پابندی۔ یہ یقینی طور پر طرز بیان کا کمال ہے جو ادب سے وابستہ لوگوں کا خاصہ ہے کہ قاری زندگی کا بھیانک رخ پڑھتے ہوئے ایک متبادل زندگی کے خواب دیکھنے لگ جاتا ہے۔ ایسا کچھ ہی ہمیں رابعہ عامر کی کتاب میں ملتا ہے۔ انہوں نے تاہم محض خواب نہں دکھایا بلکہ ایک بھیانک منظر سے نجات کا متبادل راستہ دکھا یا ہے جوکہ حکمرانوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔ انہوں نے فکشن نہیں، حقیقت کی عکاسی کی ہے تو اس میں مزاحمتی ادب ہی نہیں سماجیات اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی دلچسپی کا مواد موجود ہے۔ مصنفہ نے اگرچہ کشمیر اور فلسطین کو موضوع سخن بنایا ہے لیکن اس کتاب کا دائرہ اثر عالمی ہے۔ مجموعی طور پر رابعہ عامر کی کتاب ، دانشوروں ، حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ سب مل کر ایک ایسے عالمی نظام کی بنیاد ڈالیں جو امن و آشتی سے عبارت ہو نہ کہ ظلم و تشدد سے۔ ریاستیں اپی اس ذمہ داری کا ادراک کریں کہ وہ ایسی پالیسیوں اور پروگرام پر عمل پیرا ہوں جس سے شہریوں کی جسمانی ہی نہیں بلکہ فکری نشو نما بھی ہو تاکہ وہ فطرت کی نگہبانی کا فریضہ بخوبی انجام دے سکیں۔