عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو گرفتار کرنا موجودہ حکومت کی بہت بڑی غلطی ہے‘جس کا اندازہ انہیں مرحلہ وار ہوتا چلا جائیگا۔ پنڈی بوائے شیخ رشید احمد اپنے منفرد انداز سیاست کی بنا پر ملک کے چند مقبول سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں‘ ان کی ہر بات عوام چٹکلے لے کر سنتی ہے اور ان کی ہر بات میں ضرور کوئی نہ کوئی سیاسی راز پنہاں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ رشید ہر دوسرے ٹاک شو میں لائیو اعتراف کرتے ہیں کہ انکے کسی ٹی وی چینل میں آنے سے اس پروگرام کی ریٹنگ بڑھ جاتی ہے‘وہ گیٹ نمبر 4کی پیداوار ہیں‘وغیرہ وغیرہ! شیخ رشید کی ہر گفتگو میں مزاح کا پہلو ضرور ہوتا ہے‘اس کے علاوہ ان کی پیشنگوئیوں سے سیاسی ماحول سنسنی کا شکار بھی رہتا ہے۔ ماضی میں جب ان کی شریف برادران سے راہیں جدا ہوئیں تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ایک وقت آئیگا کہ میں اسمبلی میں ہوں گا اور نواز شریف نہیں ہونگے‘ وہ بار بار یہ دعوی کرتے رہے لیکن ان کے اس دعوے کو سیاسی بھڑک بازی قرار دیا جاتا رہا تاہم 2013ء کے انتخابات کے بعد جب نواز شریف پانامہ سیکنڈل میں نااہل ہوگئے اور 2018ء کے عام انتخابات کے بعد شیخ رشید قومی اسمبلی میں پہنچے اور نواز شریف جیل میں تھے تو شیخ رشید نے اپنے روائتی انداز میں ہاتھ میں سگار لے کر نعرے لگائے کہ انکی پیشنگوئی درست ثابت ہوچکی ہے۔انہوں نے اپنی سیاست کا عملی آغاز محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت کی ایوب خان کیخلاف تحریک بحالی جمہوریت سے کیا‘وہ ملک میں چلنے والی ختم نبوتﷺ کی تحریکوں میں بھی پیش پیش رہے اور جیل یاترا کا سامنا کرتے رہے‘ایک مرتبہ انہیں جلسہ عام میں کلاشنکوف ہوا میں لہرانے پر محترمہ بینظیر بھٹو کے دوراقتدار میں جب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں شدید سیاسی مخاصمت تھی‘جیل یاترا کرنا پڑی۔ اس مرتبہ شیخ رشیداحمد کو گرفتار کیا گیا ہے تو کبھی انکی پولیس والوں کیساتھ بحث و تکرار کے مختلف مناظر قوم کو دیکھنے کو مل رہے ہیں‘کبھی وہ ہاتھ میں ہتھکڑیوں کیساتھ سگار پکڑ کر نعرہ زن ہورہے ہوتے ہیں‘ان کے منفرد اور مخصوص انداز کی بنا پر حکومت کو ان کی گرفتاری سے کوئی فائدہ تو حاصل نہ ہوسکا البتہ شیخ رشید اس کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں‘جیسے انہیں پولیس نے دھکے دئیے تو وہ ایک پولیس اہلکار کو گلے لگاکر آبدیدہ ہوگئے‘جس پر پورے ملک میں سوال اٹھا کہ ایک 73سالہ عوامی انداز کے سیاستدان کے ساتھ ایسا سلوک ظلم ہے‘شہباز گل‘شیریں مزاری‘اعظم سواتی‘فواد چوہدری وغیرہ کی گرفتاریوں سے حکومت کی ساکھ کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا شیخ رشید احمد کی گرفتاری نے حکومت کو پہنچا یا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں:شیخ رشید جب بھی رہا ہوئے‘وہ حکومت کے اتنے لتے لیں گے کہ حکمرانوں کو شرمندگی کے علاوہ کسی دوسری کیفیت کا سامنا نہیں ہوگا‘ شیخ رشید احمد نے اپنے جدا گانہ انداز میں اپنی گرفتاری کے سارے وہ راز بھی بڑی مہارت کے ساتھ بے نقاب کردئیے ہیں جو پہلے تحریک انصاف کے گرفتار ہونیوالے رہنما نہ کرسکے‘شیخ رشید نے پولیس وین پر کھڑے ہو کر ہاتھ میں سگار اور ہتھکڑیاں لہراتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ موت میری محبوبہ، ہتھکڑیاں میرا زیور‘جیل میرا سسرال ہے اور اس حکومت کو مارچ تک نست و نابود کردونگا‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ میری اہم لوگوں سے ملاقات کروائی گئی اور کہا گیا کہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دو‘گزشتہ روز بھی ایک ملاقات کی آفر کروائی گئی‘جسے ٹھکرا دیا‘انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ لوگ عمران خان کو نا اہل کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں نہ آسکے‘یہ لوگ تحریک انصاف کو توڑ پھوڑ کا شکار کرکے پیٹریاٹ جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں‘جسے انہوں نے کہا کہ میں کسی طور پر کامیاب نہیں ہونے دوں گا اور اب زندگی کے جس حصے میں ہوں کسی طور پر عمران خان کو نہیں چھوڑوں گا اور سیاسی وابستگی تبدیل نہیں کروں گا‘گویا شیخ رشید معصومانہ انداز میں وہ سب کہہ گئے جو پہلے تحریک انصاف کے گرفتار ہونیوالے رہنمانہ کہہ سکے‘ بہرحال تحریک انصاف کے خلاف آئندہ دنوں میں مزید سخت کریک ڈاؤن کی اطلاعات ہیں‘جس کا عمران خان کی طرف سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کے بعد شاید کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور بالآخر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم حکومت اپنے ہی بوجھ تلے زمین بوس ہوجائے گا‘جس کا ثبوت حکومت کی طرف سے انتخابات سے فرار کی واضح علامات ہیں‘جیسے فوج‘رینجرز اور عدلیہ کی طرف سے اہلکار انتخابات کی غرض سے نا دینے کی خبریں آرہی ہیں‘جواز:دہشتگردی کی حالیہ لہر کو قرار دیا جارہا ہے‘اس پر سیاسی حلقوں کا سوال درست ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر جب دہشتگردی کے واقعات میں خوفناک اضافہ جاری تھااور پیپلز پارٹی‘اے این پی کا الزام تھا کہ نواز شریف اور عمران خان کے علاوہ کوئی انتخابی مہم دہشتگردی کے خوف سے چلانے سے محروم ہے‘اس وقت الیکشن کی سیکورٹی کے انتظامات سنبھالے گئے تھے تو اب کیوں نہیں؟ کیا عمران خان کاکہنا درست ہے کہ پورا نظام انکے خلاف ہوچکا ہے تاہم موجودہ حکمران جتنی مرضی گرفتاریاں کرلیں۔ آخر کاراس دور کا اختتام سیاسی جماعتوں کی بالا دستی اور آئین کی فتح کی صورت میں سامنے آئے گا آجا کر پی ڈی ایم حکمرانوں نے بھی زمین بوس ہوجانا ہے‘جس کی سب سے بڑی وجہ عوامی حمایت کے برعکس زور زبردستی حکمرانی ہے‘لہذا حکمران جو مرضی کرلیں‘عوام میں ان کی ساکھ مزید مجروح ہوگی اور اس کا ذمہ دار اور کوئی نہیں‘حکمران اور اس کی فسطائیت ہوگی، کیپٹن صفدر نے گھر کا بھیدی ہوتے ہوئے بلا مقصد لنکا نہیں ڈھائی۔ ٭٭٭٭٭