مادر وطن میں ہر سوخوف اور مایوسی کا عالم ہے‘ میرے ایک دوست کا موقف ہے کہ پاکستان میں با اثر افراد یا گروہ کچھ بھی کرسکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا‘اس سے میری اکثر تکرار رہتی کہ ایسا نہیں ہے۔ با اثر لوگ سسٹم کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو ہر غلطی سے بچالیتے ہیں لیکن اس کا موقف ایک انچ بھی ادھر سے اْدھر نہیں ہو سکا‘ اب موجودہ حالات و واقعات میں اس کا موقف میرے موقف پر غالب ہوتا محسوس ہورہا ہے ‘وہ ان دنوں صرف قہقہے لگاتا ہے اور ان قہقہوں میں تقریبا نہ صرف تمام حالات کی گونج ہوتی ہے بلکہ وہ ہمارا مذاق بھی اڑاتے ہیں‘اس کی ایک رائے نے بڑی حد تک گہری سوچ میں ڈبو رکھا ہے‘وہ موقف پیش کرتا ہے کہ ہم جیسے جتنے لوگ قانون‘آئین اور جمہوریت کی تشریح کرتے نہیں تھکتے‘ماضی اور حال کو مد نظر رکھ کر تجزیے و تبصرے کرتے ہیں‘وہ صرف اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مجھ سمیت کئی دوست اسے ایسی باتیں کرنے پر ان پڑھ اور حالات سے نا آشنا تصور کرتے ہیں مگر سچ پوچھیے تو جو کچھ گزشتہ دس ساڑھے دس ماہ سے ہورہاہے‘اس کی ہر بات درست لگتی ہے‘شہباز گل گرفتار ہوئے‘ویل چیئرپر عدالت آمد‘سسکیاں‘آکسیجن پائپ کے بغیر آہ و فغاں‘اس کے باوجو د نا کسی کو ترس آیا اور نہ قانون کو حرکت میں لایا جاسکا‘اعظم سواتی ایک ٹویٹ پر گرفتار ہوئے‘پورے ملک میں ان پر مقدمات کی بارش کردی گئی‘ فواد چوہدری کو گرفتار ہوئے‘ جج صاحب پوچھتے رہے‘سر پر سیاہ چادر کون ڈالتا ہے؟ پولیس انجان بنی رہی‘عدالت کے بار بار احکامات صادر کرنے کے باوجود سر سے چادر نہ اتر سکی‘شیخ رشید احمد کو رات کے دوسرے پہر ان کے گھر سے اٹھالیا گیا‘ ایک سے دو اور پھر چند مقدمات مزید درج ہوگئے‘ صحافیوں پر مقدمات کی بوچھاڑ کردی گئی‘متعدد صحافی ملک چھوڑنے پر مجبورہوگئے‘ارشد شریف کو کینیا میں شہید کردیا گیا‘آج تک اس کے اصل محرکات تک سامنے نہیں لائے جاسکے‘ملزمان کی تلاش یا تعین کیا ہم نے کرنا ہے‘عمران خان پر آواز بلند کرنے پر مقدمات کے اندراج پر اندراج کا سلسلہ شروع کردیا گیا‘انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو 25مئی کو لوگوں کے گھروں میں پولیس داخل ہوئی‘دروازے تک قانون کے رکھوالوں کی طرف سے توڑ کر لوگوں کے گھروں کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا‘تشدد کرتے وقت عورتوں‘بچوں کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا‘ بزرگوں کی تذلیل میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ 25مئی کو پولیس نے شہریوں کی گاڑیاں توڑیں‘ان کے سر پھاڑ دئیے‘اتنا تشدد کیا گیا کہ انٹرنیشنل انسانی حقوق کی تنظیمیں تڑپ اٹھیں لیکن ہمارے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خاں اور تمام حکومت اس دن کے اپنے سیاہ کارناموں پر اتراتی ہے‘اس کے بعد جب دوبارہ عمران خان نے لانگ مارچ شروع کیا تو وزیر آبا د میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوگیا‘ایک بے گناہ کارکن معظم شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے‘اس کے مقدمے کے اندراج سے حکومت اور پولیس انکاری رہی‘ جس ملزم کو گرفتار کیا گیا‘اس کے پے در پے ویڈیو پیغامات جاری کئے گئے‘اس ضمن میں جب عمران خان نے جے آئی ٹی قائم کروائی تو پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اس کے ساتھ اور اس کے تحقیقاتی مواد کیساتھ کیا ہوا؟ سب جانتے ہیں‘تاہم معاملہ یہاں تک نہیں رکا بلکہ عمران خان پر مقدمات کی بوچھاڑ شروع کردی گئی‘اس وقت تک عمران خان پر 76سے زائد مقدمات درج ہیں‘مزید مقدمات درج ہوسکتے ہیں‘اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہمارے موجودہ حکومتی اہتمام میں عمران خان سے زیادہ ان کے ملزم نوید کو حکومت کی نظر میں اہمیت حاصل ہے‘بہرحال جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق موجودہ 13جماعتوں کی وفاقی حکومت تو ایک طرف پنجاب کی نگران حکومت بھی اپنا اصل کردار ادا کرنے میں ناکام ہے‘جس طرح تحریک انصاف نے اپنی انتخابی ریلی کا آغاز کرنا تھا اور اس ریلی کیلئے تحریک انصاف نے لاہور کی پولیس اور ضلعی انتظامیہ سے سارے مذاکرات کرتے ہوئے این او سی بھی حاصل کررکھے تھے‘اس ریلی کے شروع ہونے سے چند لمحوں پہلے دفعہ144کا نافذ کردیا جانا اور پولیس کی طرف سے پورے لاہور ڈویژن کی پولیس کو مدعو کرکے بدترین تشدد کرنا اور تحریک انصاف کے ایک کارکن ظل شاہ کا جاں بحق ہوجانا‘ اسکے قتل کا مقدمہ بھی الٹا عمران خان پر درج کر دیا جانا۔ یہ نگران پنجاب حکومت کیخلاف سب سے بڑی چارج شیٹ ہے‘ایک طرف نگران حکومت ہر دوسری رات کو زمان پارک جانے والے راستوں پر پولیس کو الرٹ کر دیتی ہے‘دوسری طرف عمران خان کی سیکورٹی بھی اس نے واپس لے رکھی ہے‘تحریک انصاف کے کارکنوں پر پولیس کے ذریعے تشدد بھی کروا رہی ہے‘ نگران حکومت کے وزیر اطلاعات پوچھتے ہیں کہ 25مئی کو کوکونسی آفت آ پڑی تھی‘ان سے کوئی پوچھے کہ جناب آپ کس طرح کی سیاست کر رہے ہیں؟ آپ کا کام تو صرف الیکشن کروانا اور گھر جانا ہے‘آپ میں اتنا زعم کیسے آگیا‘ جب آپ کا حکومت سے اس کے علاوہ کوئی لینا دینا نہیں کہ الیکشن کرائے۔اگر آپکو لگتا ہے کہ آپ بڑے سیاستدان بن گئے ہیں تو پھر آئندہ انتخابات میں حصہ لیجئے اور اپنا وزن عوام کے ووٹ کے ترازو میں تولئے ‘ تاہم اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے‘میرے دوست کا موقف درست ثابت ہو رہا ہے کہ پاکستان میں با اثر افراد یا گروہ کچھ بھی کرسکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ٭٭٭٭٭