مریم نواز نے ایک نجی ٹی وی کے اینکر کو انٹر ویو دیتے ہوئے ہر مشکل سوال کا جواب اپنی ہی مرضی کے مطابق دیا۔ ایسے تمام پروگرام پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ کم از کم میں نے اپنے دو سالہ چینل کے پروگرام میں یہی دیکھا۔ یقینا اب عوام ان ٹوپی ڈراموں سے تھک چکے ہیں۔ کیونکہ سیاسی شعور نے اس عوام کو آزادا فضاؤں میں اڑنے کے لیے ننھے ننھے سے پنکھ دے دیئے ہیں۔ ظاہر ہے وقت کی آبیاری کے ساتھ وہ پنکھ پروں میں تبدیل ہوتے جائیں گے اور وہ دن دور نہ ہو گا، جب عوام سٹیٹس کوکی سیاست سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے۔ پارٹی عہدہ ملنے پر اینکر پرسن نے سوال کیا کہ آپ اب حمزہ سے سینئر ہو گئی ہیں، تو کیا حمزہ آپ سے ناراض ہے؟ جواب ملا ’’نہیں‘‘ جب وہ وزیر اعلیٰ بنے تو میں نے بڑی بہن ہونے کے ناطے اِن کو مبارکباد دی۔ پارٹی کے لیے ہم سب ایک ہیں۔ حمزہ کی پارٹی کے لیے بہت سی خدمات ہیں۔ یہاں سوال اْٹھتا ہے کہ اگر حمزہ کی پارٹی کی خدمات ہیں تو اْنہیں ان کی اہلیت کے مطابق کارپوریشن میں لگا دیا جائے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ وزیرِ اعلیٰ ہمیشہ شریف خاندان سے ہو۔ کتنی لا چارگی ہے بے چارے شریف خاندان کے لیے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے شریف میڈیکل کمپلیکس یا اتفاق ہاسپٹل میں اپنا علاج نہیں کرا سکتے۔ ان کے خاندان کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر فرد کو ہر موقع پر ہر سرجری کے لیے مغرب کی طرف منھ کر کے حاجت کے دو نفلوں کی نیت کرنا پڑتی ہے۔ مگر اس پسماندہ عوام کا کیا ہو گا جو انھی کی فیکٹریوں میں مزدوریاں کر کے ٹیکس پَے کرتے ہیں لیکن بدلے میں ان کو کچھ نہیں ملتا۔ ایک احساس کارڈ تھا جسے ختم کرنے کے درپے ہیں، انھوں نے مزید فرمایا کہ آنے والے انتخابات میں پنجاب کے CM کا فیصلہ پارٹی کرے گی۔ یعنی عوام کے ووٹ گئے بھاڑ میں پر مریم بی بی کہتی ہیں کہ عوام کے فیصلوں کو ’’میں نہ مانوں‘‘۔شاہد خاقان عباسی کی ناراضی پر جواب ملا کہ نہیں وہ بالکل ناراض نہیں ہیں۔ وہ مختلف کانفرنسیں کر کے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کے منشور کے منافی اپنا نظریہ بنا رہے ہیں لیکن مریم نواز فرماتی ہیں ’’میں نہ مانوں۔‘‘ عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر بدلے کی سیاست کو جمہوریت کا جھوٹا نام دیتے ہوئے پھر کہا میں نہ مانوں۔ ضمنی انتخابات اور آزاد جموں کشمیر کے انتخابات میں ہارنے پر مریم بی بی نے کہا کہ میری ذمہ داری تو صرف الیکشن کمپین تک تھی۔ مادام مریم نے یہ بھی الزام لگایا کہ وہاں دھاندلی ہوئی اور مجھے پہلے سے ہی نتائج معلوم تھے اور میں پھر بھی پارٹی کے بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دینے کے لیے گئی تھی۔ اب سنیے میری ہڈ بیتی لاہور کے NA 157 میں میں اور میرا پورا خاندان ضمنی الیکشن کے لیے ووٹ ڈالنے گئے۔ ہم سب کے ووٹوں کو گلبرک کے پولنگ سٹیشن سے اٹھا کر کینٹ کے کسی دور افتادہ پولنگ سٹیشن میں پھینک دیا گیا جہاں پولنگ ہو ہی نہ رہی تھی۔ ضمنی الیکشنز میں بھی پنجاب پولیس نے ان کا پوری طرح ساتھ دیا مگر بری طرح ہار گئے مگر مریم بی بی کہتی ہیں کہ ’’میں نہ مانوں۔‘‘ ووٹ آف نو کانفیڈنس کی ڈیل پر سوال پوچھا گیا کہ شہباز شریف نے ڈیل کی تو کہا چلیں چھوڑیں۔ انہیں سوچ سمجھ کے ڈیل کرنی چاہیے تھی۔ ووٹ آف نو کانفیڈنس کی ڈیل کو مریم نواز نے کمال ہوشیاری سے سیاست کا نام دیا۔ ہارس ٹریڈنگ کو مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کے اپنے ہی لوگ اس کو چھوڑ کے آگئے جبکہ پورا مین سٹریم میڈیا پر شور برپا تھا کیسے لوگوں کو خریدا گیا۔ اس روز جب سٹے کا بازار گرم تھا میں نے خود نون لیگ کے مرد و خواتین ایم این ایز کو مین بلیوارڈ گلبرگ میں آتے جاتے دیکھا۔ لیکن مادام مریم کہتی ہیں اس ہارس ٹریڈنگ کو ’’میں نہ مانوں۔‘‘ مریم نواز صاحبہ نے فرمایا کہ میں صرف بدلہ چاہتی ہوں۔ انصاف اور نا انصافی کو ’’میں نہ مانوں‘‘۔ فواد چوہدری اور شاہ محمود قریشی دونوں نے مل کر زمان پارک میں سڑک کے کنارے ایک پریس کانفرنس کی تو ان پر مقدمہ بنا دیا گیا۔ اب اس مقدمے پر ہنسناہے یا روناایک آزاد ملک کے آزاد شہری اور سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے عہدہ دار ہوتے ہوئے آپ پریس کانفرنس نہیں کر سکتے جب کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہو۔ عدالتِ عالیہ کے ریٹائرڈ ججز پر مبینہ الزامات لگاتے ہوئے مریم نواز نے توہینِ عدالت کی۔جب قانون کا معیار دہرا ہو گا تو مریم نواز کا حق ہے کہ وہ اس پر بولے مریم صاحبہ مسلسل یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے جب کہ آج تک وہ اپنی منی ٹریل نہ دے سکیں۔ مگر عرض کیا ہے ’’میں نہ مانوں۔‘‘ اب اگلی صورتِ حال ملاحظہ فرمائیے۔ مادام کے پرانے انٹرویو کی ویڈیو لیک ہوتی ہے جس میں وہ نہایت معصومیت سے اپنی BMW سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہیں۔اینکر بتا رہا ہے کہ 2009 اور 2010 میں آپ نے اس گاڑی کے ٹیکس تک ادا کیے ہیں۔ مگر جس طرح انہوں نے پہلے بیانات دیے کہ پاکستان سے باہر تو کیا پاکستان میں بھی میری کوئی جائیداد نہیں۔ توشہ خانہ کی ایک گھڑی کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔ لگتا ہے رجیم چینج میں سب کے اثاثوں کا آپریشن کلین اَپ ہوا ہے۔ مگر ساری کی ساری پی ڈی ایم کہتی ہے ’’میں نہ مانوں‘‘۔ پرانے وزیر اعظم نواز شریف صاحب بھی کہا کرتے تھے اگر میرے اثاثے میری آمدن سے زیادہ ہیں تو تم کو اس سے کیا۔ لیکن اب عوام ستم کی بھٹی میں پک کر تیار ہے اورکہتے ہیں کہ ناں جی ناں اب ہم نہ مانیں! آئین کے مطابق ہمیں اپنے سب حقوق چاہئیں۔