بھارت کے شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی شرکت سیاسی اور سفارتی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔پاکستان میں بھی ان کی شرکت پر مختلف آرا موجود رہی ہیں ۔ بالخصوص پاکستان تحریک انصاف نے اسے شدت کے ساتھ ہدف تنقید بنایا اور اسے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے منافی قرار دیا ۔ پاکستان میں یہ ایک سیاسی روایت رہی ہے کہ جب بھی کسی حکومت کی جانب سے پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لئے کوئی کوشش ہوتی ہے تو حکومت مخالف سیاست دان فوری طور پر اس پر کشمیر فروخت کرنے کا الزام لگانا ضروری سمجھتے ہیں یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ کشمیر کی فروخت کاری سے ان کا کیا مطلب ہے او ر یہ کہ اس طرح کے الزامات سے کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے ریاستی موقف پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟تاہم پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے، جو سابق وزیر خارجہ ہیں، اس دورے کو درست اقدام قرار دیا ۔ یہی نہیں بلکہ ایک اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی بلاول بھٹو کے دورہ ء بھارت کی حمایت کی ہے ۔ یہ درست ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے اس ماحول میں اس شرکت سے تعلقات میں کسی مثبت پیشرفت کا کوئی امکان موجود نہیں تھا مگر سفارتی اعتبار سے اسے ایک جراتمندانہ قدم ضرور قرار دیا گیا۔عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی بھارت میں ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کو ایک مثبت قدم قرار دیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم باہمی تعاون کی بنیاد پر ایک مشترکہ علاقائی تنظیم ہے۔جس میں چین، بھارت، پاکستان، قازقستان، کرغیزستان، روس ،تاجکستان،اور ازبکستان شامل ہیں جب کہ افغانستان،بیلاروس،ایران اور منگولیا اس میں شمولیت کے لئے خواہاں ہیں۔اس طرح کی باہمی تعاون پر مبنی تنظیم کے تمام اراکین ہی مساوی طور پر سفارتی احترام و آداب کے ساتھ معزز سمجھے جاتے ہیں ۔ میزبان ملک کے لئے لازم ہے کہ وہ دوران اجلاس تمام رکن ممالک کے لئے سفارتی آداب اور احترام کا خیال رکھے اور رکن ممالک کے باہمی جھگڑوں کو تنظیم کے اجتماعی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے۔اس بنیادی اصول اور معیار کی روشنی میں بلاول بھٹو کے ساتھ بھارتی وزیر خارجہ کا اختیار کردہ معاندانہ رویہ ، جسے عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، امتیازی حیثیت کا حامل تھا ۔باہمی تنازعات تو چین اور بھارت کے بھی موجود ہیں اور سنگین نوعیت کے ہیں مگر چین کے معاملہ میں بھارت کا رویہ یکسر مختلف رہا۔ بھارت کے ان ہی رویوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی ایک اور علاقائی تنظیم سارک غیر فعال ہو چکی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کا یہ رویہ ہر گز حیرت کا باعث نہیں اس نے پاکستان کے وجود کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ پہلے ہی دن سے بھارتی سیاسی قیادت نے پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ ریاست کشمیر کے الحاق کا معاملہ ہو یا دریائی پانی کی تقسیم ہر دو معاملات پر اختلافات کی موجودگی سے باہمی تعلقات میں ہمیشہ کشیدگی غالب رہی۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ تعلقات میں یہ کشیدگی دونوں ممالک کے لئے عسکری اور سیاسی ضرورت بن چکی ہے۔ بھارت کے ساحلی شہر گوا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں پاکستان کی شرکت سے اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات میں حائل برف تو نہ پگھلا سکی مگر اہم بات جو دنیا کے سامنے لانا مطلوب تھی وہ عالمی اور علاقائی فورم پر بھارت کے غیر سفارتی اور سیاسی اخلاقیات سے عاری رویوں پر توجہ دلانا تھی جو وہ ہمیشہ پاکستان کے بارے میں رکھتا چلا آیا ہے ۔ کشمیر کا تنازع پاکستان کے لئے انتہائی اہم رہا ہے اور کوئی بھی حکومت اس کی یہ اہمیت نظر انداز نہیں کر سکتی ۔کشمیری عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیئے ۔یہ مسئلہ گزشتہ کئی عشروں سے اقوام متحدہ میں حل طلب ہے اور افسوس کی بات یہ کہ عالمی ضمیر خاموش ہے ،انصاف کے سنہری اصول کتابوں اور تقاریر میں محفوظ ہیں ،سیاسی آزادی کے بنیادی حقوق اور فیصلہ سازی کا صوابدیدی عمل کشمیریوں کے لئے مفقود ہے اس صورت حال کو اجاگر کر تے رہنا ہی پاکستان کی کشمیر پالیسی ہے ۔اقوام عالم کی اس اہم تنازع پر بے حسی اور بھارت کی جارحانہ ہٹ دھرمی سے دونوں ممالک کے درمیان جنگی کیفیت موجود ہے ۔اس جنگی کیفیت میں ہر دو ممالک اپنے حقیقی مسائل پر توجہ دینے سے گریزاں ہیں۔بھارت 140 کروڑ کے لگ بھگ آبادی کی بنیاد پر اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جب کہ پاکستان آبادی کی بنیاد پر چھٹا بڑا ملک ہے جس کی آبادی 24 کروڑ ہو چکی ہے۔آبادی کے اعتبار سے ان دو بڑے ممالک کے درمیان جو ایٹمی طاقت کے حامل بھی ہیں جنگی کیفیت کی مستقل موجودگی نہ صرف عالمی امن کے لئے خطرہ ہے بلکہ جنوبی ایشیا کی اتنی بڑی آبادی ، جنگی مصارف پر وسائل کے مختص ہونے کے باعث ، ا نسانی ترقی سے محروم ہے۔ انسانی ترقیاتی اشاریہ ( HUMAN DEVELOPMENT INDEX (جو صحت ،تعلیم کی سہولیات اور معیار زیست کے پیمانوں پر مرتب کیا جاتا ہے۔ ان دونوں ممالک میں انتہائی پست سطح پر ہے ۔ 2022 کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 192 ممالک کی فہرست میں بھارت 132 اور پاکستان 161 پر ہے۔یہ صورت حال ان دونوں ملکوں کے لئے شرمناک ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تشوش کا باعث بھی ہونا چاہیئے۔پاکستان اور بھارت کا مستقبل پر امن بقائے باہمی کے زرین اصول پر ہی منحصر ہے۔اس بات کو دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت جتنا جلد سمجھ لے وہ بہتر ہے اگرچہ دیر تو بہت ہو چکی ہے۔