قبلہ اول مسجد ِ اقصیٰ کے سابق امام و خطیب الشیخ سید اسد بیوض تمیمی مرحوم کے صاحبزادے اور ممبر نیشنل اسمبلی فلسطین الشیخ سید مامون اسد التمیمی نے کہا ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ ان کا یہ بیان سٹیٹ پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسئلہ فلسطین دراصل فلسطینی عوام یا جزیرہ ِ عرب کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری اْمت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اِ س وقت اسرائیلی دہشت گردی اپنے پورے نقطہ ِ عروج پر ہے۔ اسرائیلیوں نے فلسطینی عوام پر عرصہِ حیات تنگ کردیا ہے۔ خواتین کی عصمت دری، معصوم بچوں پر وحشیانہ تشدد، مسجد ِ اقصیٰ کی بے حرمتی اور نوجوانوں کی شہادتیں اْمت کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ مسلم حکمرانوں کا مسئلہ ِفلسطین کو نظر انداز کرنا انتہائی افسوسناک اور کربناک ہے۔ پاکستانی ایٹمی قوت ہے اِس کی بات کو نظر انداز کیا جانا اقوام ِ عالم کے لئے مشکل ہے۔ اِس لئے فلسطینی عوام اْمید رکھتے ہیں کہ پاکستان فلسطین میں جاری ظلم و جبر کو بند کروانے اور مسجد ِ اقصیٰ کو آزادی کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ سید اَسد نے کہا کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے والد ِمحترم سے وعدہ کیا تھا کہ اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ہم فلسطینی عوام کے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج اْن کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری پاکستان کا وزیرخارجہ ہے اور ہمارا اْن سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے اِس وعدہ کی پاسداری کیلئے بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری طرف امریکی حکام کو اپنا ڈبل سٹینڈرڈ تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ اس طرز ِ عمل سے تیسری دنیا میں امریکی حکومت اور امریکی عوام دونوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کانسا بلانکا او آئی سی سمیت دیگر عالمی تنظیموں کے اجلاس بلانے اور اقوام کو متحرک کرنے کیلئے سفارتی سطح پر آواز بلند کرے۔ مظلوم فلسطینی عوام کا یہ پیغام لے کر پاکستان کے عوام کے پاس آیا ہوں کہ امت مسلمہ قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حفاظت کیلئے سیسیہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔دوسری جانب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مسئلہ ِ فلسطین اِس قدر سادہ نہیں ہے۔ دراصل یہ صیہونی ریاست کی متشددانہ اور غاضبانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ صیہونی ریاست فلسطین اور فلسطینیوں کے وجود کو اپنے خلاف طاقتور خطرہ محسوس کرتی ہے۔ صرف موجود ہ مسائل ہی نہیں بلکہ فلسطین کو ماضی میں یہودیوں کے خلاف ہونے والے واقعات کا بھی ذمہ دار تصور کرتی ہے۔ مثلاََ موجودہ وزیراعظم نتن یاہو نے 2015ء میں ہولوکاسٹ کو مسلمانوں سے جوڑ کر ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا تھا جس میں نتن یاہو نے کہا تھا کہ 1941ء میں مسجد ِ اقصیٰ کے سابق امام حج اَمین ال حسینی نے جرمنی کے سابق چانسلر و طالع آزما ایڈولف ہٹلر کو جرمنی میں جاکر قائل کیا تھا کہ اگر یہودیوں سے جان چھڑانی ہے تو اَنہیں مٹا دیا جائے۔ نتن کے انکشافات کے مطابق ہٹلر تو یہودیوں کو وطن بدر کرنا چاہتا تھا مگر مفتی امین ال حسینی نے کہا کہ اگر تم نے اِنہیں دربدر کردیا تو یہ فلسطین میں جاکر آباد ہوجائیں گے (اور پھر واپس جرمنی آئیں گے)۔ جس پر ہٹلر نے امین ال حسینی سے پوچھا ’تو پھر مجھے کیا کرنا چاہئے‘ جس پر حسینی نے جواب دیا کہ ’اْنہیں جلا دو‘۔ لیکن حیران کن طورپر جب نتن یاہو کے تاریخ دان والد سے حزب ِ اختلاف کی جماعتوں اور دیگر تاریخ کے ماہرین نے سوال کرنا شروع کئے تو اْنہوں نے اپنے بیٹے کے متعلق کہا کہ ’وہ تاریخ کو مسخ کررہا ہے‘۔ صرف اِتنا ہی نہیں بلکہ تل ابیب یونیورسٹی کی پروفیسراور ہولوکاسٹ میوزیم ’یاد ویشم‘ کی چیف دینا پورات نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ مفتی ال حسینی کی ملاقات ہٹلر سے اٹھائس نومبر 1941ء میں ہوئی جبکہ دو سال قبل نازی جرمنی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ہٹلر نے یہودی نسل مٹانے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ ’اسرائیل ریڈیو‘ کو انٹر ویو دیتے ہوئے دینا پورات نے کہا کہ ’اِس لئے مسجد ِ اقصیٰ کے سابق امام مفتی امین ال حسینی کو ہولوکاسٹ کا موردِ الزام ٹھہرانا حقائق سے انحراف کرنے کے متراد ف ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہودیوں کو مٹانے کا خیال تو ہٹلر کی آئیڈیالوجی میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ ساتھ ہی جرمن حکومت کے ترجمان نے نتن یاہو کے اِس بیان پر اپنے ردِ عمل میں کہا کہ ہولوکاسٹ کا واقعہ خالصتاََ جرمن حکومت کی ذمہ داری ہے اِس لئے اِس واقعہ کا کسی اور کو ذمہ دارنہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ حیران کن طور پر خود صہیونی ریاست کے اْس وقت کے وزیر ِ دفاع موشلے یالون نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ شاید وزیراعظم (نتن یاہو) نے غلط تصور کرلیا ہے۔ ’اسرائیلی فوج کے ریڈیو‘ کوبیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہولوکاسٹ تو خالصتاََ ہٹلر کا اپنا آئیڈیا تھا اْس عمل کے لئے مفتی امین الحسینی کو موردِ الزام ٹھہرانا انتہائی بیوقوفانہ خیال ہے۔ اگرچہ صہیونی ریاست کے سربراہ کی سرزنش خو د اپنوں نے ہی کردی مگر اِس ساری صورتحال میں نتن یاہو کی سو چ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو فلسطینیوں کا وجود برداشت کرنے سے قاصر ہیں چاہے اِس کے لئے اْنہیں تاریخ کو ہی مسخ کیوں نہ کرنا پڑے وہ مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے خیال سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اگر ایسی متشددانہ سوچ کا حامی صہیونی ریاست کا سربراہ رہتا ہے تو یقینا فلسطین کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہی رہیں گی۔اِس لئے سید اسد نے پاکستان سے جو اْمیدباندھی ہے حکومت کو اْس کا جائزہ لینا چاہئے۔ وزیر خارجہ نے جس انداز میں بھارت میں جاکر کشمیر کا مسئلہ اْٹھایا ہے بالکل اْسی طرح امریکہ میں بیٹھ کر فلسطین کا مسئلہ بھرپور انداز میں اْٹھانا چاہئے کیونکہ ہم مسلمان ’ایک جسم،ایک جان‘ کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی حصے کو چوٹ پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ حکومت ِ پاکستان کو فلسطین پر اپنا بھرپور موقف دنیا کے سامنے رکھنا چاہئے۔ ٭٭٭٭٭