پاکستان کے سیاسی افق پرتعمیر ،ترقی اور استحکام کے نعروں کے ساتھ ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور ہوا ہے ۔ جمہوری ریاستوں میں سیاسی جماعتوں کے قیام کو ایک بنیادی سیاسی حق کی حیثیت حاصل ہے۔عام طور پرایک سیاسی جماعت کسی نظرئیے، اصلاحاتی پروگرام اور عوامی شعور کی تحریک کو بنیاد بناتے ہوئے وجود میں آتی ہے۔ پھر اسے انتخابی عمل سے گزرتے ہوئے اپنی ساکھ اور اپنے قیام کے جواز کے لئے عوامی پذیرائی کی سند حاصل کرنا ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا یہاں سیاسی جماعت کے قیام کے لئے نہ کوئی نظریہ اہم ہوتا ہے اور نہ کوئی اصلاحات کا پروگرام پیش کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں سیاسی جماعت کے قیام کے لئے وافر مالیاتی وسائل،با اثر سماجی شخصیات کی موجودگی اور سب سے اہم پاکستان کے سیاسی نظام پر فیصلہ کن طاقت کی حامل اسٹیبلشمنٹ کی تائید وحمایت اور اس کی منشاء کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جہانگیر ترین اور عبدلعلیم خان کی سرکردگی میں استحکام پاکستان پارٹی کا قیا ان ہی بنیادی اجزاء ( عوامل) کے اشتراک سے عمل میں آیا ہے۔جس میں پاکستان تحریک انصاف سے الگ کئے جانے والے بیشترسیاسی رہنمائوں کی، اعتماد سے عاری چہروں کے ساتھ ، مشترکہ شمولیت اس کے قیام کے جواز اور اس کے سیاسی مستقبل کی نشاندہی کے لئے کافی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس طرح سے سیاسی جماعت کا قیام کوئی نیا اور انوکھا واقعہ نہیں ۔ 1955 میں مغربی پاکستان اسمبلی میں ری پبلکن پارٹی کے راتوں رات قیام کی اولین مثال سے 2023 میں استحکام پاکستان پارٹی کے قیام تک اس طرح کے غیر سیاسی اور غیر جمہوری طرز عمل پر مشتمل حیرت انگیز واقعات سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔سیاسی جماعتوں کا اس طرح قیام ایک عارضی اور فوری مقصد کے حصول کے لئے تو انہیں کامیاب کر دیتا ہے مگر اقتدار کی راہداریوں میں در حقیقت ان کا وجود مانند حباب ہی رہتا ہے۔ضرورت ختم ‘سیاسی جماعت ختم۔بے شمار سیاسی جماعتوں نے اسی طرح اقتدار کی راہداریوں میں جنم لیا اور تاریخ میں گم ہو گئیں۔استحکام پاکستان پارٹی کابھی قیام جن حالات اور جس پس منظر میں ہوا ہے وہ سیاسی اعتبار سے ہر گز قابل ستائش نہیں۔ گزشتہ سال اپریل سے پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکارہے ۔ اس نے نہ صرف سیاسی نظام کی جمہوری حیثیت کو تا رتار کردیا ہے بلکہ انتظامی اور آئینی اعتبار سے بھی ریاست کو شدید بحران میں ڈال رکھا ہے۔سیاست دان ہمیشہ کی طرح بحران پیدا تو کر لیتے ہیں مگر اس پر قابو پانے کے لئے جس سیاسی سوجھ بوجھ ،دوراندیشی اوراعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس کا مظاہرہ نہیں کر پاتے ۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی تمام تر مقبولیت کے باجود اس تمام دورانیے میں جمہوری سیاسی رویوں کا مظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ضد ،انا ، ہٹ دھرمی پر مبنی رویے سیاست میں کامیابی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔تحمل، افہام و تفہیم، اشتراک عمل جمہوی سیاسی عمل کے استحکام اور استقرار کے لئے بہت اہم ہیں جن سے حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی قائدنے اجتناب کیا۔ پارلیمانی سیاست سے علیحدگی اور مسلسل احتجاجی سیاست جیسے غلط اور عاجلانہ فیصلوں سے نہ صرف پارٹی کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ ملک میں جاری بحران بھی کسی صورت قابو پانے میں نہیں آسکا ۔اس پر مستزاد 9 مئی کو ہونے والے واقعات نے اس کے سیاسی تشخص کو بری طرح مسخ کردیا ۔ریاست کے دفاعی اداروں سے متعلق جو رویہ تحریک انصاف کے قائد اور ان کے کارکنوں کا رہا ہے وہ کسی بھی صورت اداروں کے لئے قابل قبول نہیں تھا چنانچہ 9 مئی تحریک انصاف کیلئے نائن الیون بن گیا ۔فساد برپا کرنے والوں کے لئے دفاعی اداروں نے شکنجہ کسنا شروع کیا اور پھر دیکھتے دیکھتے ایک مقبول عام سیاسی جماعت خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھرنا شروع ہوگئی ۔اور پھر اس سیاسی جماعت کے ملبے سے ایک نئی سیاسی جماعت کی عمارت تعمیر ہو گئی۔ 9 مئی کے فسادات میں جو بھی ملوث تھے گرفت صرف ان ہی کی ہونا چاہیئے تھی اور انہیں ہی سزا ملنی چاہیئے۔ان فسادات کی آڑ میں ایک سیاسی جماعت ختم کرنے کی جو حکومتی کوششیں ہورہی ہیں اس کی تحسین ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتوں کا اس طرح بننا اور بگڑنا جمہوری سیاسی عمل کی ناپختگی کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے سیاست دانوں کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں اور اس تیزی سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی اس روش سے سیاستدان جمہوری سیاسی نظام میں اپنی اہمیت اور حیثیت کی کمزوری کو تو ثابت کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پورے سیاسی نظام کے لئے بھی سوالیہ نشان بن جاتے ہیں ۔ عوام کا سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین پر سے اعتماد اور بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔استحکام پاکستا ن پارٹی کا قیام جن حالات میں ہوا ہے وہ کسی بھی طرح نہ تو سیاسی نظام کے لئے استحکام کا باعث ہو سکے گی اور نہ ہی اس سے استحکام پاکستان کا بھاری پتھر اٹھ پائے گا ۔ اس کا جنم جس طرح اقتدار کی راہداریوں میں اسی طرح ضرورت پوری ہونے کے بعد اس کا انجام بھی ایک معلوم حقیقت ہے۔پھر یہ کہ جو سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین آج تحریک انصاف کی اس ٹوٹ پھوٹ پر شاداں ہیں ان کا رویہ بھی کسی طرح جمہوری سیاست کا آئینہ دار نہیں ہے۔انہیں سیاسی جماعتوں کے اس طرح قیام اور انجام کی راہ میں مزاحم ہونا چاہیئے۔جمہوری سیاست سے وابستگی کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ جمہوری سیاسی نظام میں کارفرما غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت اور اثر و رسوخ کو کم کیا جائے ۔ جمہوری سیاسی عمل کی پختگی کی کلید ان ہی سیاسی جماعتوں کے ہی پاس ہوتی ہے جن کا خمیر عوام اور ان کے مفادات سے اٹھا ہوتاہے اور و ہی دیر تک سیاسی افق پر موجود رہتی ہیں ۔ورنہ اب تک نہ جانے کتنی سیاسی جماعتیںپاکستان کی سیای تاریخ کے کوڑے دان میں جمع ہو تی رہی ہیں !!!