شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا بخت نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا خوئے جفائے ناز پر اپنا سخن ہے منحصر ہم نے تو حرف حرف کو حرفِ سپاس کر دیا اور اب یوں ہے اے کہ ہوائے تند خو اور بڑھا دیے کی لو غم نے تو آہ سرد کو اپنی اساس کر دیا۔ لیجیے قومی اسمبلی وفاقی کابینہ تحلیل ہو چکی نگران وزیر اعظم کا فیصلہ نہ ہو سکا اور تب تک شہباز شریف ہی سے کام چلایا جائے گا۔آپ خاطر جمع رکھیں کہ نگران سیٹ ویسے ہی اسی کا تسلسل ہو گا۔’مکی رات عذاباں دی چڑھیا دن سزاواں دا‘لوگ کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کیونکہ نگران تو کسی کو جواب دہ بھی نہیں ویسے تو سوال کرنے کے قابل تو جانے والوں نے بھی نہیں چھوڑا۔ جاتے جاتے بھی ایک مرتبہ بجلی کا جھٹکا دے دیا گیا کیا کمال خبر ہے کہ حکومت کا آخری دن شریف فیملی کی پراپرٹی ریلیز ۔مقدمات تو پہلے فشوں ہو چکے لوگوں کے ہاتھ میں تو لنگوٹی بھی نہیں آئی وہ تو سر پکڑے غالب کا شعر بنے ہوئے ہیں: ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام ایک مرگ ناگہانی اور ہے اور یہ خبر اپنی جگہ کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ وہ دشمن قوتوں کے حربوں کو خاک میں ملانے کے لئے ہر لمحہ تیار ہیں مگر ہمارا یہ موضوع نہیں کہ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ شہباز شریف کس رسان سے فرما رہے ہیں کہ عوام ان کی کارکردگی اور مشکلات کو سمجھیں گے مگر سوال تو یہ ہے کہ آپ عوام کی مشکلات دور کرنے آئے تھے اور شاید آپ ٹھیک ہی کہتے تھے کہ مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں، کیا کیا امیدیں باندھی تھیں مگر ہمارے یہ طنزیہ جملے آپ کہاں سمجھیں گے۔ میں تو مریم نواز کا بیان پڑھ کر سرشار ہوتا رہا انہوں نے خوش خبری سنائی ہے کہ شہر لندن سے جلد آنے والا ہے محترمہ اب بچا ہی کیا کہ شیر کو لندن سے آ کر خوشی ہو،لوگوں کی دلچسپی ختم ہو چکی اب کوئی شیر آئے یا کوئی اور جانور لوگ مگرمچھوں اور بھیڑیوں کے عادی ہو چکے۔یہاں تو ہاتھی بھی سفید ہاتھی ثابت ہوئے۔ پہلے لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے حال احوال پوچھتے تھے مگر اب بلوں کے بارے میں دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ آپ یقین کیجیے ہماری کام کرنے والی کام چھوڑ کر گائوں جا رہی ہے اس نے درست کہا کہ وہ کہاں سے بجلی کا بل ادا کرے اب تو گیس بھی مہنگی ہو گئی اس کا کہنا تھا کہ گائوں میں درختوں کے سائے میں بھی وقت گزر جائے گا سچ مچ اب تو وقت گزارنا بھی مشکل ہو گیا کوئی جیل بھی تو نہیں جا سکتا وہاں بھی سیاستدانوں اور امیروں کو سہولتیں ملتی ہیں۔ یاد آیا کہ حکومت چودہ اگست پر قیدیوں کی قید میں دگنی تخفیف کر رہی ہے لگتا ہے کہ اب ان سے مجرموں کا خرچہ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ میں کوئی بات سے بات نہیں نکال رہا کہ آپ بھی اسی معاشرے میں ہیں جہاں بے روگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں نوجوانوں کے ہاتھوں میں موبائل ہیں اور شام کو مٹر گشت یعنی آوارگی ایک کماتا ہے اور دس پلتے ہیں۔ یقین کیجئے کوئی پرساں حال نہیں۔ بچے ایم اے انگریزی کرنے کے بعد بھی پریشان ہیں کہ کیا کریں پرائیویٹ پر تنخواہیں مالک کی مرضی پر طے پاتی ہیں۔ آٹھ گھنٹے کی بجائے بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے والا کس بے بسی سے پوچھتا ہے کہ دوپہر کا کھانا تو آپ دیں گے ناں!یہ مذاق نہیں کہ خان کے دور کا نان 15کا تھا اب تیس کا چنے کی پلیٹ 50 کی تھی اب 100 کی مگر کوئی نان چنے کب تک کھائے روز تو گھوڑا بھی پسند نہیں کرتا۔ سیدھا سا فارمولا ہے کہ پٹرول اور بجلی بڑھتی ہے تو اشیائے خوردو نوش خود کار انداز میں بڑھ جاتی ہے۔ آٹا تو بنیادی شے ہے جو ڈبل قیمت سے بھی تجاوز کر چکا ہے تبھی تو غریب شاعر عارف پروہنا کہتا تھا: آٹا مہنگا تیل وی مہنگا ہن سجناں دا میل وی مہنگا پتہ نہیں اس دور میں اس نے کوئی نیا شعر ہی کہا ہو گا سب صورت حال عیاں ہے حکومت کے انداز پر دوسرے بھی لوٹنے پر لگے ہوئے ہی۔ں میرے بیٹے عزیر بن سعد نے میٹرک میں 1047نمبر لئے تو ایک ادارے یونیک کے پاس گیا داخلہ فارم ایک ہزار روپے کا فارم جمع کروانے گیا تو کہا دو ماہ کی فیس اور داخلہ بھی دیں اندازہ کریں کہ درخواست گزار کے پاس اچھے ادارے کی آپشن ختم ہو جائے تو بھی فیسوں اور کتابوں میں آنے والی گرانی کتنوں کو تعلیم چھوڑنے پر مجبور کرے گی۔ سب سے بڑی ضرورتوں میں اب موٹر سائیکل ہے جو زبردست مہنگی ہو چکی ہے اب طلبا بے چارے کس طرح بسوں اور ویگنوں پر دھکے کھائیں اور یہ بھی اپنی جگہ کہ بسیں اور ویگنیں بھی اب اکثر بند ہو چکی ہیں ۔ اب چنگ چی پر کوئی کہاں تک جا سکتا ہے ویسے لگتا ہے کہ آخر میں چنگ چی ہی رہ جائے گی ہاں ہاں یاد آیا سریا بھی تو ڈبل سے آگے نکل چکا تاہم گردن سے سریا نکل گیا کہ سر اٹھانے کی ہمت نہیں اور نہ آنکھیں ملانے کی۔سچ ہی کسی نے پیروڈی کی تھی جھکنے والوں نے عزتیں پائیں ہم خودی کو بلند کرتے رہے۔چلتے چلتے بلاول کا بھی تذکرہ ہو جائے کہ اب جب وہ کہہ رہے ہیں کہ سلیکٹڈ نے مہنگائی کے سوا کچھ نہیں کیا تو وہ سلیکٹڈ اب کسے کہہ رہے ہیں کہ اب تو ان کے ساتھیوں نے عوام کو جیتے جی مار دیا۔ جو کام خان نے ساڑھے تین سال میں کیا وہ آپ لوگوں نے تیرہ چودہ ماہ میں کر دیا۔ ویسے سلیکٹڈ کا لفظ غلط اور بے محل بھی نہیں سب سلیکٹڈ ہی ہوتے ہیں کچھ اعلانیہ اور کچھ غیر اعلانہ کھیر کھاں نوں باندری نے ڈنڈے کھان نوں رچھ۔چلئے دیکھتے ہیں کہ لندن سے شیر آ رہا ہے کئی ماہ سے سن رہے ہیں شاید شیر پیدل آ رہا ہے مگر یہاں کسی شیر کی نہیں چلتی یہ شیر بھی جانتا ہے: کوئی آنکھوں میں لے کر وفا کے دیے کوئی بیٹھا ہے رستے میں تیرے لئے