انڈیا-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری کے اعلان کو اثر و رسوخ اوعالمی اقتصادی طاقت کے لیے جاری مقابلے میں ایک اہم دعویٰ قرار دیا جارہا ہے۔ اگرچہ یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو( BRI)کے لیے فوری خطرہ نہیں بن سکتا، لیکن یہ علاقائی روابط اور اقتصادی ترقی کے لیے مسابقتی وژن کے ابھرنے کا اشارہ دے رہا ہے جس کے لئے امریکہ کی ان کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جب تائیوان ،افغان پالیسی کی آڑ میں چین کو کمزور کرنے کے لئے بھارت پر خصوصی نوازشات کی گئیں۔ پاکستان نے چین کے عظیم منصوبے کے لئے سی پیک کی صورت میں ایک اقتصادی راہداری فراہم کی ،جس کے بعد سے پاکستان اور چین کے خلاف عالمی سطح پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹوکو متنازع بنانے کا منظم پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ واضح رہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں دہلی کا اعلان نیا نہیں بلکہ مارچ 2021 کو امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کے کھربوں ڈالر بیلٹ اینڈ روڈ انفرا اسٹرکچر کا مقابلہ کرنے کے لیے ’300ارب یورو مالیت کا’بِلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ منصوبے کے لئے تجویز پیش کی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن اور او ای سی ڈی کے سیکرٹری جنرل میتھائس کورمین نے 6 اکتوبر 2021 کو مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کا او ای سی ڈی اور‘بِلڈ بیک بیٹر ورلڈ’کے اشتراک سے بی آر آئی مخالف منصوبے کا بھی اعلان کیا تھا, مزید برآں ’’بِلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ منصوبے سے پہلے بھی ا مریکی محکمہ خارجہ تعلقات کونسل کے جیمز میک برائڈ 2017میںامریکہ بھارت کے ساتھ مل کر چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کے مد مقابل دو اہم بنیادی ڈھانچے کے پہلے منصوبے نیو سلک روڈ (NSR) منصوبے کا عندیہ دے چکے تھے۔ سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پراجیکٹ( روٹ 606) بھی بنا لیکن سب منصوبے فعال نہ ہوسکے۔ دہلی میں G20 سربراہی اجلاس کے دوران اعلان کردہ 'انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور' نے چین کے عظیم منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پر اس کے اثرات کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ انڈیا، امریکہ، سعودی عرب اور یورپی ممالک سمیت عالمی رہنمائوں پر مشتمل اس معاہدے نے اپنے ممکنہ اقتصادی فوائد بلکہ اس کے جغرافیائی سیاسی اثرات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔ (IMEEC) انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور( امک)کہا جاتا ہے، اس نے خطے کے دو اہم کھلاڑی چین اور پاکستان کے اخراج کی وجہ سے تنازعات کو جنم دیا ہے۔ چین کا بی آر آئی، ایک وسیع انفراسٹرکچر اور اقتصادی ترقی کا منصوبہ ہے، بی آر آئی چین کی خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی جزو رہا ہے، جو اقتصادی ترقی اور تجارت کو فروغ دیتے ہوئے عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔آئی ایم ای ای سی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع عالمی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ آئی ایم ای ای سی سے چین اور پاکستان کا اخراج خطے میں سیاسی دشمنی کا ایک مضبوط اشارہ ہے۔ بی آر آئی پر آئی ایم ای ای سی کے اثرات کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہوگا کہ علاقائی ممالک کیا ردعمل دیتے ہیں۔ پاکستان، جو چین کا قریبی اتحادی ہے، آئی ایم ای ای سی کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھ سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں بڑھاوا دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس، دیگر علاقائی کھلاڑی آئی ایم ای ای سی کو تنوع اور تعاون کے ایک موقع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ آئی ایم ای ای سی کا مقصد چین کو نظرانداز کرتے ہوئے انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کا ایک نیا راستہ بنانا ہے۔آئی ایم ای ای سی کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ آئی ایم ای ای سی کو امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے جو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے محتاط ہیں۔آئی ایم ای ای سی کو مشرق وسطیٰ میں اقتصادی ترقی اور استحکام کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔بی آر آئی پر آئی ایم ای ای سی کا اثر ات ابھی تک واضح نہیں ہیں تاہم، آئی ایم ای ای سی کچھ سرمایہ کاری اور تجارت کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ آئی ایم ای ای سی کا جغرافیائی سیاسی اثر بھی ہو سکتا ہے۔مزید برآں مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کو مضبوط بنانے اور یہ ان خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔آئی ایم ای ای سی ایک نیا اقدام ہے، اور یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس کے مکمل اثرات کیا ہوں گے۔ تاہم، آئی ایم ای ای سی اس امر کی علامت ہے کہ ممالک بی آر آئی کے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ آئی ایم ای ای سی تجارت کو بی آر آئی سے ہٹا کر انڈیا ، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان ایک نیا تجارتی راستہ بنائے کر چین کو نظرانداز کرنا چاہتا ہے۔ اس سے تجارت کی مقدار کم ہو سکتی ہے جو بی آر آئی کے ذریعے جاتی ہے۔آئی ایم ای ای سی کو انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ یہ بی آر آئی کے لیے سرمایہ کاری کو راغب کرنا مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ بادی النظر آئی ایم ای ای سی انڈیا کو مشرق وسطیٰ اور یورپ کی اقتصادی اور سیاسی ترقی میں ایک بڑا کردار دے کر چین کے لیے ان خطوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانامشکل بنانا چاہتے یئں۔لیکن بی آر آئی پر اس کے اثرات، 21 ویں صدی کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں مشترکہ اقتصادی ترقی اور استحکام کے حصول کے تعاون اور اپنے مفادات کو ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت سے متعین ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭