دنیا کی آبادی بڑھنے سے جس طرح چیزوں کی پیداوار بڑھ رہی ہے، ان کا استعمال زیادہ ہورہا ہے، اسی طرح دنیا میں ٹریش یعنی فالتو چیزیں ردی کا سامان بھی بڑھ رہا ہے۔کہاجاتا ہے: one man's trash is another man's treasure. کہ کسی کی ردی دوسرے کے لیے خزانہ ہے۔یہ خزانہ صرف ری سائیکلنگ کے ہنر ہی سے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ری سائیکلنگ کے تین آر دنیا میں مقبولیت اختیار کر رہے ہیں۔ reduce/reuse/recycle آسان سا فارمولا ہے کم استعمال کریں دوبارہ استعمال کریں اور فالتو چیزوں کو دوبارہ سے سے قابل استعمال بنائیں۔ری سائیکلنگ کا مطلب ہی یہ ہے کہ فالتو ویسٹ کو دوبارہ سے ریسورس کی طرح استعمال میں لانا۔پہلے ایسی سلیقہ مند خواتین ہوتی تھی جو بستر کی پرانی چادروں سے میز پوش بناتی اور پرانے میز پوشوں جھاڑن کے کپڑے بنا لیتیں۔ڈالڈا کے کنستروں کو ڈھکن لگوا کر باورچی خانے میں دالیں رکھنے کے کام لاتیں اپنے اور ابا کے پرانے جوڑے سے چھوٹے بچے کے پاجامے بناتیں اور فراکیں بناتیں۔پہلے بازار جانے کے لیے بھی باقاعدہ کپڑے کا تھیلا استعمال میں لایا جاتا جو کسی پرانے بیڈ شیٹ ہی سے بنایا ہوتا۔بے شمار مثالیں ایسی ہیں کہ پرانی چیزوں کو نئی زندگی دی جاتی تھی اس وقت یہ زندگی کا حصہ تھا اور اس کو ری سائیکلنگ کا نام نہیں دیا جاتا تھا ۔ پھر وقت بدلا زندگی کے طور اطوار بھی بدل گئے۔ کچھ خوشحالی آئی تو پرانی کو پھینک دینے نئی چیزیں خریدنے کا رجحان زیادہ بڑھا تو پھر ری سائیکلنگ کا تصور آیا کہ اگر ہم اسی طرح ہر چیز اٹھا کر پھینک دیتے چلے جائیں گے تو یہاں فالتو ویسٹ کا اتنا ڈھیر ہو جائے گا زمین کے لیے لئے سانس لینا مشکل ہو جائے گا۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں ٹریش کو سائنسی بنیادوں پر ری سائیکل کیا جاتا ہے اور اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی بات ہو گی اس وقت کالم کا موضوع یہ ہے کہ دنیا میں ایسے آرٹسٹ بھی موجود ہیں، جو پھینکی گئی فالتو چیزوں سے آرٹ کے کے زبردست نمونے بنا رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ترکیہ کے ایک آرٹسٹ Deniz sadgic نے استنبول کے ایئرپورٹ سے جمع ہونیوالے ٹریش سے مشہور شخصیات کے حیرت انگیز پورٹریٹ بنائے۔ میں نے گوگل کیا تو دنیا میں اور بھی کئی جگہ ایسے آرٹسٹ موجود ہیں جو فالتو چیزوں سے سے آرٹ کے بہت ہی خوبصورت نمونے بنا رہے ہیں۔نومبر کے آغاز میں مجھے دی ٹرسٹ سکول نے الحمرا میں منعقد ہونے والے میگا آرٹ ایونٹ میں مہمان بلایا گیا یہ یہ آرٹ میلہ تین دن کا تھا جس ایک دن ری سائیکلنگ سے آرٹ اور کارآمد چیزیں بنانے کا تھا میزبانوں نے مجھے چوائس دی تو میں نے ری سائیکلنگ کا دن منتخب کیا۔ سائیکلنگ اور فالتو چیزوں سے کارآمد چیزیں بنانا آرٹ چیزیں بنانا مجھے بھی پسند ہے۔کبھی کبھی میں خود بھی مشغلے کے طور پر ری سائیکلنگ پر مشتمل آرٹ اینڈ کرفٹ کرتی ہوں مثلا جوس کی پرانی بوتلوں کو پینٹ کر کے اس میں منی پلانٹ لگانا ،فالتو ڈبوں آرگنائزر بنانا اور بھی کئی قسم کے کام جو اپنے بیٹے کو آرٹ اور ریسائیکلنگ سکھانے کے لیے میں نے سمجھے اور شروع کیے۔اسی لیے میں نے ری سائیکلنگ آرٹ والا دن منتخب کیا۔ بچیوں کے ایک بڑے پیارے سے گروپ نے مجھے خوش آمدید کہا ان سب بچیوں کے فراک ردی کی چیزوں سے سجائے ہوئے تھے۔ اس میں اخباروں کا استعمال کیا گیا تھا چپس اور نمکو کے خالی ریپر استعمال کیے گئے تھے۔ الحمرا کی استاد اللہ بخش آرٹ گیلریز سکول کے بچوں کے بنائے ہوئے آرٹ کے نمونوں سے لبالب بھری تھیں۔ پینٹنگز آرٹ کے ماڈل اور ری سائیکلنگ سے سجاوٹ کا سامان سب ہی بہت خوبصورت تھا۔ پرانے ٹائروں سے بیٹھنے کیلئے خوبصورت سیٹ پر بنائی گئی تھی۔پرانے صندوق پر پیلے اور سبز رنگ سے پینٹ کر کے اسے دیدہ زیب سجاوٹ کے آئٹم میں بدل دیا گیا تھا۔انڈے کے خالی کریٹوں کے پھول اور بوتل کے ڈھکنوں سے خوبصورت گٹار بنایا گیا۔اسکول کی ٹیچرز نے اس سارے پروجیکٹ پر بہت محنت کی تھی۔ادارے کی روح رواں سائرہ یوسف صاحبہ اور میڈم سلمی اعجاز کا شکریہ مجھے بلایا اور اس تخلیقی ماحول میں سانس لینے کا موقع ملا۔ میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شہر کے بڑوں کو بھی بلا کر آرٹ کی ایسی سرگرمیوں میں ری سائیکلنگ سکھانی چاہیے تاکہ گھر میں بیٹھی ہوئی عورتیں اپنا فالتو وقت صرف ڈراموں اور سوشل میڈیا کی بلاوجہ کی چیٹ میں صرف کرنے کی بجائے تخلیقی اور مثبت کام کرنے میں گزاریں۔ اسکولوں کی سطح پر آرٹ کرنا ہر بچے کے لیے لازم ہوتا ہے۔ خواہ وہ آرٹ کے اظہار میں اچھا ہو یا نہیں والدین بھی انہیں سراہتے ہیں اور ان کے ٹیچرز بھی مگر جیسے جیسے بڑے بچے بڑے ہونے لگتے ہیں ان کے نصاب سے آرٹ کا مضمون ختم کر دیا جاتا ہے۔میں نے کالج کے ٹین ایجرز طالب علموں کو آرٹ کی کسی سرگرمی میں مشغول نہیں دیکھا جونہی میٹرک اور کالج کی پڑھائی شروع ہوتی ہے ان پر نمبر حاصل کرنے کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ پھر آرٹ جیسی تخلیقی سرگرمیاں وقت کا زیاں لگتی ہیں۔ حالانکہ اس وقت زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ ہم نوجوانوں کو سکھا سکیں کہ زندگی کی بے شمار مصروفیات کے ساتھ کسی مثبت مشغلے یا آرٹ کی کسی سرگرمی کے لیے وقت نکالنا ضروری ہے۔ میری تجویز یہ ہے شہر میں ری سائیکلنگ کا ہنر سکھانے کے حوالے سے مفت ورکشاپس ہوں تاکہ لوگ یہ ہنر سیکھ کر فالتو چیزوں کو دوبارہ کارآمد بنانا سیکھ سکیں اور اس سے کچھ معاشی فائدہ بھی حاصل کیا جاسکے۔یہ وہ آرٹ ہے جس کیلئے سامان آپ کے گھر کی ردی اور ٹریش ہی ہے۔خواہش یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ آرٹ، ری سائیکلنگ اور کارآمد مشغلے کی اہمیت کو سمجھیں۔